تائیوان کی نو منتخب صدر نے منصب سبنھال لیا

صدر سائی انگ ون

سائی کا کہنا تھا وہ متحدہ چین کے تناظر میں 1992ء میں ہونے والے مذکرات کو تسلیم کرتی ہیں لیکن ان کے بقول تائیوان کی حکومت اپنے آئین و قانون، ’’جمہوری اقدار اور تائیوان کے عوام کی امنگوں‘‘ کی بنیاد پر چین سے رابطہ رکھے۔

تائیوان کی نو منتخب صدر سائی انگ ون نے بیجنگ کے ساتھ امن کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے لیکن مذاکرات کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔

انھیں تاریخی اعتبار سے چین مخالف جماعت کی حمایت حاصل ہے۔

جمعہ کو اپنے افتتاحی خطاب میں سائی نے نہ تو چین سے باضابطہ آزادی کی بات کی اور نہ ہی اس کے ساتھ اتحاد کا تذکرہ کیا لیکن ان کے بقول وہ امن کی راہ اپنائیں گی۔

59 سالہ صدر نے بیجنگ کی طرف سے اس اصرار کو کہ وہ چین اور تائیوان کو ایک ہی ملک تصور کیے جانے پر بات کریں، مسترد کر دیا۔

تائی پے میں لگ بھگ 30 ہزار افراد کے اجتماع کے سامنے تقریر کرتے ہوئے سائی کا کہنا تھا کہ ’’چین کے ساتھ تعلقات علاقائی سلامتی کے نظام کا ایک اہم جز ہیں۔ ہم امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے کام کریں گے۔ آبنائے کے دونوں اطراف کی حکومتیں ماضی کا بوجھ ایک طرف رکھتے ہوئے دونوں جانب کے عوام کے مفاد کے لیے مثبت بات چیت میں شامل ہوں۔‘‘

تائیوان کے سبکدوش ہونے والے صدر ما ینگ جیو چین کی ان شرائط کے تحت مذاکرات کے لیے راضی تھے کہ تائیوان کو جمہوریہ چین اور بیجنگ کو عوامی جمہوریہ چین تصور کرتے ہوئے دونوں خطوں کو ایک ہی ملک تصور کیا جائے۔

ما کے آٹھ سالہ دور اقتدار میں طرفین نے تجارت، سیاحت اور سرمایہ کاری سے متعلق 23 معاہدے کیے جب کہ ماضی کے صدور کی نسبت باہمی تعلقات کو بہتر بنایا۔

سائی کا کہنا تھا وہ متحدہ چین کے تناظر میں 1992ء میں ہونے والے مذکرات کو تسلیم کرتی ہیں لیکن ان کے بقول تائیوان کی حکومت اپنے آئین و قانون، ’’جمہوری اقدار اور تائیوان کے عوام کی امنگوں‘‘ کی بنیاد پر چین سے رابطہ رکھے۔

بین الاقوامی سطح اور خصوصاً بیجنگ میں سفارتکار نظر رکھے ہوئے تھے کہ نو منتخب صدر شاید چین کے ساتھ متفقہ مذاکراتی لائحہ عمل تجویز کریں۔

لیکن سائی کی جماعت نے ان خیالات کو مسترد کیا کہ طرفین ایک ہی پرچم کے سائے میں ہیں۔