تائیوان میں حکمران نیشنلسٹ پارٹی (کے ای ٹی) نے ہفتے کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں شکست تسلیم کر لی ہے، جسے اس ملک کی متحرک سیاست میں تاریخی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔
ووٹنگ کا عمل ختم ہونے کے کچھ گھنٹوں بعد (کے ایم ٹی) کی طرف سے اُمیدوار اریک چاؤ نے شکست پر اپنے حامیوں سے معذرت کی اور جتینے والی اُمیدوار کو مبارکباد دی۔
انتخابات میں حزب مخالف کی جماعت ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی (ڈی پی پی) کی اُمیدوار سائی انگ ون کامیاب ہوئیں جو ملک کی پہلی منتخب صدر ہوں گی۔
اریک چاؤ نے کہا کہ ’’ہم ہار گئے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ (کے ایم ٹی) کو انتخابات میں شکست ہوئی، ہم نے درکار سخت محنت نہیں کی اور ووٹروں کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔‘‘
چین اس خطے کو اپنا حصہ تصور کرتا رہا ہے اور اس کا سب سے بڑا تجارتی اتحادی بھی ہے جو کہ اس ملک کی اقتصادی حالت کو مستحکم کرنے میں بھی کردار ادا کرتا آرہا ہے۔
لیکن انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو خاص طور پر نوجوانوں کے لیے روزگار اور جمود کا شکار اجرتوں جیسے کئی معاملات پر چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔
سائی نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ انھوں نے اپنی طرف سے بہترین کام کرنے کی کوشش کی اور اب نتائج تائیوان کے رائے دہندگان کے ہاتھوں میں ہیں۔ " مجھے یقین ہے میری ٹیم پراعتماد ہے اور میرے تمام حامیوں کو بھی بھروسہ ہے۔"
جیسے ہی سائی ووٹ ڈال کر پولنگ اسٹیشن سے نکلیں تو وہاں موجود لوگوں نے تالیاں بجائی اور بعض تو یہ نعرے لگا رہے تھے "ہیلو پریذیڈنٹ"۔
تازہ ترین رائے عامہ کے جائزوں میں سائی کے لیے قوم پرست جماعت (کے ایم ٹی) پر واضح برتری ظاہر کی گئی ہے۔
انتخابات میں خاص طور پر نوجوان ووٹرز کا اہم کردار بتایا جا رہا ہے نہ صرف صدر کے لیے بلکہ قانون سازوں کے لیے بھی جب کہ یہ توقع بھی ہے کہ ڈی پی پی پہلی بار بھاری اکثریت سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔
چین نے ان انتخابات پر کچھ زیادہ تبصرہ نہیں کیا لیکن اس کا کہنا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی امیدوار کے ساتھ مل کر کام نہیں کرے گا جو کہ "ون چائینا" اصول کی حمایت نہیں کرتا۔
تائیوان اور چین 1949ء میں ہونے والی ایک خانہ جنگی کے بعد علیحدہ ہو گئے تھے۔ لیکن بیجنگ اب بھی اسے اپنا ایک صوبہ تصور کرتا ہے جو اس سے علیحدہ ہو گیا تھا اور کسی روز دوبارہ اس کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔