ذرائع نے بتایا کہ ایک مشتبہ شخص کو چھ برس قید کی سخت ترین سزا سنائی گئی ہے، جن پر الزام ہے کہ انٹرنیٹ پر شائع کیے گئے مواد میں جہاد اور نسلی منافرت کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی
واشنگٹن —
چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ میں، جہاں مسلمان اکثریتی آبادی واقع ہے، چینی عدالتوں نےمذہبی شدت پسندی پر اُکسانے اور دیگر الزامات کے تحت یغور نسل کے 19 افراد کو قید کی سزائیں سنائی ہیں۔
جمعرات کے دِن سرکاری ’لیگل ڈیلی‘ نے بتایا کہ ایک مشتبہ شخص کو چھ برس قید کی سخت ترین سزا دی گئی ہے، جن پر الزام ہے کہ اُس نےانٹرنیٹ پر شائع کیے گئے مواد میں جہاد اور نسلی منافرت کو فروغ دینے کی کوشش کی۔
رپورٹ کے مطابق، دیگر الزامات کے تحت کچھ دوسرے مشتبہ افراد کو دو سے پانچ برس قید کی سزائیں سنائی گئیں، جن میں عام لوگوں کی دل آزاری اور آن لائن افواہیں پھیلانا شامل ہے۔
حالانکہ رپورٹ میں مشتبہ افراد کی نسل کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، لیکن اُن کے ناموں سے پتا چلتا ہے کہ وہ ترک زبان بولنے والے لوگ ہیں، جن کا تعلق یغور کی اکثریتی مسلمان برادری سے ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ اُسے یغور انتہا پسندوں کی طرف سے بڑھتا ہوا خطرہ لاحق ہے، جو مشرقی ترکستان کے نام سے ایک علیحدہ ملک تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ انسانی حقوق سے متعلق متعدد گروپوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی بھاری نفری اور مسلمان اداروں کی نگرانی کو درست قرار دینے کی غرض سے چین مبالغہ آرائی سےکام لیتے ہوئے، خطرے کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔
یغور برادری سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد اکثریتی’ہان چینی گروپ‘ کی طرف سے شدید دخل اندازی پر مبنی مذہبی اور ثقافتی امتیاز برتے جانے کی شکایت کرتے آئے ہیں۔
سنہ 2009سے سنکیانگ میں تناؤ جاری ہے، جب ہنگاموں کے ایک سلسلے میں 200سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جب یغوروں کی سرکاری سلامتی افواج اور ہان چینیوں سے جھڑپیں ہوئیں۔
مارچ میں کاشگر کے علاقے میں، جہاں یغور نسل کی کثیر آبادی ہے، ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں 21 افراد ہلاک ہوئے، جس کے بعد عہدے داروں نے اِنھیں مذہبی بنیادوں پر دہشت گردی کے واقعات قرار دیا۔ یغور برادری سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکنوں نے اس الزام کو مسترد کیا ہے۔
جمعرات کے دِن سرکاری ’لیگل ڈیلی‘ نے بتایا کہ ایک مشتبہ شخص کو چھ برس قید کی سخت ترین سزا دی گئی ہے، جن پر الزام ہے کہ اُس نےانٹرنیٹ پر شائع کیے گئے مواد میں جہاد اور نسلی منافرت کو فروغ دینے کی کوشش کی۔
رپورٹ کے مطابق، دیگر الزامات کے تحت کچھ دوسرے مشتبہ افراد کو دو سے پانچ برس قید کی سزائیں سنائی گئیں، جن میں عام لوگوں کی دل آزاری اور آن لائن افواہیں پھیلانا شامل ہے۔
حالانکہ رپورٹ میں مشتبہ افراد کی نسل کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، لیکن اُن کے ناموں سے پتا چلتا ہے کہ وہ ترک زبان بولنے والے لوگ ہیں، جن کا تعلق یغور کی اکثریتی مسلمان برادری سے ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ اُسے یغور انتہا پسندوں کی طرف سے بڑھتا ہوا خطرہ لاحق ہے، جو مشرقی ترکستان کے نام سے ایک علیحدہ ملک تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ انسانی حقوق سے متعلق متعدد گروپوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی بھاری نفری اور مسلمان اداروں کی نگرانی کو درست قرار دینے کی غرض سے چین مبالغہ آرائی سےکام لیتے ہوئے، خطرے کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔
یغور برادری سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد اکثریتی’ہان چینی گروپ‘ کی طرف سے شدید دخل اندازی پر مبنی مذہبی اور ثقافتی امتیاز برتے جانے کی شکایت کرتے آئے ہیں۔
سنہ 2009سے سنکیانگ میں تناؤ جاری ہے، جب ہنگاموں کے ایک سلسلے میں 200سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جب یغوروں کی سرکاری سلامتی افواج اور ہان چینیوں سے جھڑپیں ہوئیں۔
مارچ میں کاشگر کے علاقے میں، جہاں یغور نسل کی کثیر آبادی ہے، ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں 21 افراد ہلاک ہوئے، جس کے بعد عہدے داروں نے اِنھیں مذہبی بنیادوں پر دہشت گردی کے واقعات قرار دیا۔ یغور برادری سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکنوں نے اس الزام کو مسترد کیا ہے۔