چین نے امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ افغانستان میں پائیدار امن اور افغان تنازع کے مستقل حل کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے۔
چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان خوا چن ینگ نے منگل کو معمول کی میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں پیش رفت ہو رہی تھی اور فریقین سمجھوتے کے قریب تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و مصالحت کی صورتِ حال غیر یقینی ہے۔ لیکن اس کے باوجود افغانستان کے عوام جنگ کے خاتمے اور امن کے خواہاں ہیں۔
چین کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک مرحلہ وار ٹوئٹس کے ذریعے طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کر دیے تھے۔
امریکہ کے صدر کا کہنا تھا کہ طالبان ایک طرف مذاکرات کر رہے ہیں جب کہ دوسری جانب افغانستان میں قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ان کے ساتھ مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے مذاکرات منسوخی کا فیصلہ بعض وجوہات کی بنا پر کیا ہو گا۔ کیوں کہ طالبان افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے مکمل انخلا تک جنگ بندی پر متفق نہیں تھے۔
اسلام آباد کے ’انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز‘ کے ڈائریکٹر نجم رفیق کا کہنا ہے امریکہ کا یہ اصرار تھا کہ طالبان جنگ بندی کر کے کابل حکومت سے مذاکرات کریں۔ لیکن ان کے بقول طالبان ان دونوں مطالبات پر رضا مند نہیں ہو رہے تھے۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن سمجھوتے کی راہ میں یہی دو معاملات رکاوٹ بن رہے ہیں۔
نجم رفیق نے کہا کہ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ بات چیت دوبارہ شروع ہو سکتی ہیں۔ اس لیے بظاہر بات چیت کا دروازہ کھلا ہے اور یہ بالکل بند نہیں ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان لچک کا مظاہرہ کریں تو بات چیت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ بھی یہ واضح کر چکا ہے کہ افغانستان سے اس کی فوج کا مکمل انخلا نہیں ہو گا اور اس کے کچھ فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے۔ نجم رفیق کہتے ہیں کہ چین، پاکستان اور افغانستان بھی غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا سے متفق نہیں ہیں۔
نجم رفیق کے مطابق روس سمیت یورپی ممالک کا بھی یہی موقف ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی فوج کا انخلا مرحلہ وار ہونا چاہیے۔ تاکہ یہاں امن و امان کی صورتحال خراب نہ ہو۔
دوسری طرف افغان امور کے ماہر اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ ان کے بقول افغان تنازع کا حل بات چیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات مکمل طور پر ختم ہو گئے تو لڑائی میں شدت اور امن کی منزل مزید دور ہو جائے گی۔
رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ افغان مسئلے کا عسکری حل ممکن نہیں ہے۔ اس لیے دونوں فریقین کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر آنا ہو گا۔ ان کے بقول اس کے لیے دونوں فریقین کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔