چین کے وزیر خارجہ چن گانگ نے جمعہ کو کہا کہ ان کا ملک یوکرین کی جنگ میں کسی بھی فریق کو ہتھیار فروخت نہیں کرے گا۔ وہ ان مغربی خدشات کا جواب دے رہے تھے کہ بیجنگ روس کو فوجی مدد فراہم کر سکتا ہے۔
چن نے جرمن ہم منصب اینالینا بیرباک کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ چین تنازع کے متعلقہ فریقوں کو ہتھیار فراہم نہیں کرے گا، اور قوانین اور ضوابط کے مطابق دوہرے استعمال کی اشیاء کی برآمدات کو منظم اور انہیں کنٹرول کرے گا۔
انہوں نے چین کی جانب سے تنازع کا پرامن حل تلاش کرنے میں مدد کے لیے آمادگی کا اعادہ کیا۔
چین نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ تنازع میں غیر جانبدار ہے، لیکن وہ روس کی سیاسی اور اقتصادی طور پر حمایت ایسے وقت میں کر رہا ہے جب مغربی ممالک نے اس کو سزا دینے کے لیے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ماسکو کو اپنے پڑوسی یوکرین پر حملے کی پاداش میں الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی ہے۔
چن گانگ اعلیٰ سطح کے پہلے چینی اہل کار ہیں جنہوں نے روس کو ہتھیاروں کی فروخت کے بارے میں ایسا واضح بیان دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین دوہرے استعمال کی اور فوجی استعمال والی اشیاء کی برآمد کو بھی منظم کرے گا۔ فوجی اشیاء کی برآمد کے بارے میں، چین ایک محتاط اور ذمہ دارانہ رویہ اپناتا ہے۔
فروری میں، امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ امریکہ کے پاس انٹیلی جنس معلومات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ چین روس کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرنے پر غور کر رہا ہے - اور خبردار کیا تھا کہ کریملن کی جنگی کوششوں میں اس طرح کی شمولیت سنگین مسائل پیدا کرے گی ۔
حالیہ دنوں میں، یورپی رہنماؤں نے بھی اسی طرح کے انتباہات جاری کیے اور انہوں نے چین کا دورہ بھی کیا۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے بھی بیجنگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین پر حملے کے دوران روس کی اس طرح کی حمایت اقوام متحدہ کے وعدوں کی ایک صریح خلاف ورزی ہے۔
پریس کانفرنس میں شریک جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیرباک نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر چین کو اپنا کردار نبھانا چاہئے اور یوکرین تنازع کو ختم کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔
جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مجھے حیرانی ہے کہ چین نے اب تک جارح روس سے جنگ روکنے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ صدر (ولادیمیر) پوٹن کسی بھی وقت ایسا کر سکتے ہیں ، اور یوکرین کے لوگ اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہیں گے کہ آخرکار دوبارہ امن سے زندگی گزار سکیں۔
اسی نیوز کانفرنس میں، چن نے تائیوان کی حکومت کو علاقائی کشیدگی میں اضافے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جس کے بعد بیجنگ نے بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں کیں تاکہ اس جزیرہ نما ملک کو ڈرایا دھمکا یا جائے جسے وہ اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔
SEE ALSO: چین، یوکرین میں امن کے لئے اپنا اہم کردر ادا کرے: فرانسیسی صدرتائیوان کے ارد گرد کشیدگی میں اس وقت نمایاں اضافہ ہوا جب چین نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں تائیوان کے قریب جنگی جہاز اور لڑاکا طیارے تعینات کیے ۔یہ امریکی ایوان کے اسپیکر کیون میکارتھی اور تائیوان کی صدر سائی انگ وین کے درمیان ہونے والی ملاقات کا ردعمل تھا۔
چین کا اصرار ہے کہ خود مختار تائیوان کو اس کی حکمرانی کے تابع ہونا پڑے گا یا تو پرامن طریقے سے یا طاقت کے ذریعے، اور چن نے کہا کہ کشیدگی کی وجہ، تائیوان کی حکومت اور اس کے غیر ملکی حامیوں کی طرف سے آزادی کی کوششیں ہیں۔ یہ امریکہ کی طرف ایک پوشیدہ حوالہ تھا۔
جرمن وزیر خارجہ بیرباک نے خبردار کیا کہ آبنائے تائیوان میں جس سے دنیا کی بین الاقوامی تجارت کا بڑا حصہ گزرتا ہےکوئی تنازع، عالمی تباہی لائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسی لیے ہم آبنائے تائیوان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو بڑی تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔ کوئی جبراً تبدیلی ہمارے لیے بطور یورپین قابل قبول نہیں ہوگی۔
بیرباک کے خدشات کو بظاہر مسترد کرتے ہوئے،چن نے کہا کہ تائیوان ،چین کا اندرونی معاملہ ہے۔
خبر کا کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے