چولستان میں پندرھویں سالانہ جیپ ریلی جاری ہے۔ یہ صرف گاڑیوں کے مابین رفتار کا مقابلہ نہیں بلکہ اس کے ذریعے یہاں وہ مواقع پیدا ہوتے ہیں جس کا انتظار چولستان سمیت جنوبی پنجاب کے فن کار سارا سال کرتے ہیں۔
چولستان میں قلعہ دراوڑ کے علاقے میں سال کے 11 مہینے لوگوں کی محدود آمد و رفت رہتی ہے۔ لیکن ہر سال جنوری کے وسط سے فروری کے درمیانی عشرے تک تین دن کے لیے یہ علاقہ ریتلے میدانوں میں گاڑی چلانے کے شوقینوں کی اولین ترجیح بن جاتا ہے۔ جیب ریلی کے موقع پر یہاں ہر سال میلے کا سا سماں بن جاتا ہے۔
رواں سال اس جیب ریلی کا آغاز 13 فروری کو ہوا تھا جب کہ آج اس کا تیسرا روز ہے۔ اس ویران علاقے میں لوگوں کے رہنے کے لیے ایک ریزورٹ بھی بنایا گیا ہے جب کہ ریس دیکھنے آنے والوں کی بڑی تعداد کے لیے ایک خیمہ بستی بھی بسائی گئی ہے۔
رات کو اندھیرے میں روشنیاں بکھیرنے کے لیے اس ویران علاقے میں خصوصی طور پر بجلی اور برقی قمقموں کا انتظام کیا گیا ہے۔ رات کو یہاں مصنوعی روشنیوں میں ایک الگ ہی دنیا قائم ہو جاتی ہے۔ فن کاروں کی پرفارمنس سے میلے کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور رات میں دن کا سا رش رہتا ہے۔ لیکن یہ روشنیاں اس علاقے میں صرف تین دن کے لیے ہی رہتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب (ٹی ڈی سی پی) نے 16 فروری تک کلچرل میوزک نائٹ کا اہتمام بھی کیا ہے جس میں جنوبی پنجاب کے نامور لوک گلوکاروں اور فن کاروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔
جنوبی پنجاب کے فن کاروں کی خاصیت کیا ہے؟
کلچرل میوزک نائٹ میں آئے تمام فن کاروں میں جو ایک بات مُشترک دکھائی دیتی ہے وہ اُن کا پہناوا ہے جو اُنہیں عام لوگوں سے منفرد بناتا ہے۔
انہی فن کاروں میں مارواڑی لہنگا چولی زیب تن کیے کھیتا لعل بھیل بھی شامل تھے جو منہ سے آگ نکالنے کے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کھیتا لعل نے بتایا کہ وہ مُنہ سے آگ نکالتے ہیں اور اس کام میں اُن کا ساتھ بھولا رام دیتے ہیں۔ بھولا رام بھی لہنگا چولی اور بھاری زیورات پہلنے ہوئے تھے۔
کھیتا لعل کے گروپ میں لالو بھیل اور سُلطان لعل بھیل بھی شامل ہیں جو مُقامی ساز رانتھی پر سُروں کا جادو جگاتے ہیں۔ کھیتا لعل اپنا راز بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ وہ ایک بہروپیے ہیں۔ مرد ہوتے ہوئے بھی وہ 40 سال سے عورت کا روپ دھار رہے ہیں کیوں کہ یہ اُن کا فن، شوق اور روزگار ہے۔
کھیتا لعل چھوٹی عُمر میں ہی اس شعبے سے جڑ گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ گروپ میں مرد اور عورت کا امتزاج اچھا لگتا ہے لیکن عورت کو ہم شامل نہیں کر سکتے۔ کھیتا لعل کی برادری عورت کے اسٹیج پر پرفارم کرنے کو معیوب سمجھتی ہے۔
کھیتا لعل بتانے لگے کہ ہمارے آباؤ اجداد سمیت اس پیشے میں آنے والے مرد 100 سالوں سے عورت کا بہروپ کر رہے ہیں۔ لیکن بعض قبیلوں میں خواتین بھی اپنا کردار نبھاتی ہیں۔
کیا سال کے تین دن روزگار کمانے کے لیے کافی ہیں؟
کھیتا لعل بھیل کے مطابق وہ چولستان کے علاوہ سندھ، لاہور اور اسلام آباد میں ہونے والی مُختلف ثقافتی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ انہیں شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی بُلاتے ہیں۔ جس سے اُن کے روزگار کا اچھا انتظام ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چولستان جیپ ریلی جیسے سرکاری میلوں میں جو انہیں سرکار دے دیتی ہے، وہ خوش ہو کر رکھ لیتے ہیں۔ ان کے بقول فقیر لوگ خود کسی سے مانگتے نہیں ہیں۔
جنوبی پنجاب کے ایک معروف لوک گلوکار اور موسیقار کرشن لعل بھیل نے بتایا کہ اس آبائی کام نے اُنہیں بہت عزت بخشی ہے۔ لوگ اُن کی عزت کرتے ہیں اور وہ اب تک دبئی اور ملائیشیا سمیت کئی ملکوں میں پرفارم کر چکے ہیں۔
قلعہ دراوڑ کے علاقے میں کیا راتیں ہمیشہ ایسی ہوتی ہیں؟
مقامی دکان دار فاروق بخش کے مطابق قلعہ دراوڑ کے احاطے میں مغرب کے بعد زندگی گھروں میں محصور ہو جاتی ہے۔ لیکن اس میلے کے موقع پر حکومت کی طرف سے اس علاقے میں بجلی کا عارضی انتظام کیا جاتا ہے اور اسی بہانے انہیں بھی روزگار کمانے کا موقع مل جاتا ہے۔
فاروق بخش کے بقول "یہ تو جنگل بیابان ہے۔ یہاں سورج ڈھلنے کے بعد نہ کوئی خریدار آتا ہے اور نہ دُکانیں کھلتی ہیں۔ لیکن ابھی یہاں پرچون کی دکان بھی کھلی ہے، نان پکوڑے والا بھی بیٹھا ہے۔ کھانے پینے کے دیگر اسٹال بھی لگے ہیں۔ سال میں ایک بار یہاں کے لوگوں کے ساتھ یہ علاقہ بھی جی اٹھتا ہے۔"