کوئٹہ —
بلوچستان کے علاقے سبی میں ان دنوں تاریخی میلہ جاری ہے جس میں شرکت کے لیے صوبے کے علاوہ ملک کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ یہاں آئے ہوئے ہیں۔
اس میلے میں مختلف کھیلوں کے مقابلے، نیزہ بازی اور نشانہ بازی منعقد کیے جاتے ہیں جب کہ مشاعرے اور روایتی رقص اتنڑ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
مختلف علاقوں سے جانور خصوصاً بھاگ ناڑی بیل بھی نمائش اور فروخت کے لیے یہاں لائے جاتے ہیں۔
سبی میلے کی تاریخ پانچ سو سال سے بھی پرانی ہے۔ سبی کے ایک مؤرخ حبیب رند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ 1487ء میں سبی کے حکمران میر چاکر رند نے اس میلے کا اہتمام کرنا شروع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے سرد علاقوں سے لوگ فروری کے مہینے میں سبی آتے تھے اور یہاں کاروباری و دیگر سماجی سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں۔ لوگوں کے یہاں اجتماع کو دیکھتے ہوئے ایک باقاعدہ میلے کا اہتمام کیا جانے لگا۔
’’اس وقت پھر بہت سے قبائل کے لوگ اور ان کے سردار بھی یہاں جمع ہوتے تھے اور مختلف قبائلی جھگڑوں کے تصفیے بھی کروائے جاتے تھے۔‘‘
کاشتکاری اور مال مویشی کی خریدو فروخت سے منسلک لوگ اس میلے کے خاص طور پر منتظر رہتے ہیں کیونکہ یہ میلہ ان کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔
صوبائی وزیر میر اظہار حسین کھوسہ نے اس میلے کی افادیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ جہاں اس سے ثقافت اجاگر ہوتی ہے وہیں لوگوں کو آپس میں ملنے جلنے کا موقع بھی ملتا ہے۔
انھوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ سبی میلے کی طرز پر صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی میلے منعقد ہونے چاہیئں جس کے لیے ان کے بقول وہ حکومتی سطح پر کوشش بھی کریں گے۔
قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پسماندہ ترین صوبے بلوچستان میں حالیہ برسوں میں امن و امان کی صورتحال بھی غیر تسلی بخش رہی ہے جس سے یہاں ثقافتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی رہی ہیں۔
لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ میلے اور ایسی ثقافتی سرگرمیاں لوگوں کے درمیان امن و آشتی کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کرسکتی ہیں لہذا ان کے اہتمام کے لیے خصوصی اقدامات کیے جانے چاہیئں۔
سرکاری طور پر سبی میلہ 28 فروری تک جاری رہے گا لیکن یہاں آنے والوں کی سرگرمیاں مارچ کے پہلے عشرے تک جاری رہتی ہیں۔
اس میلے میں مختلف کھیلوں کے مقابلے، نیزہ بازی اور نشانہ بازی منعقد کیے جاتے ہیں جب کہ مشاعرے اور روایتی رقص اتنڑ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
مختلف علاقوں سے جانور خصوصاً بھاگ ناڑی بیل بھی نمائش اور فروخت کے لیے یہاں لائے جاتے ہیں۔
سبی میلے کی تاریخ پانچ سو سال سے بھی پرانی ہے۔ سبی کے ایک مؤرخ حبیب رند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ 1487ء میں سبی کے حکمران میر چاکر رند نے اس میلے کا اہتمام کرنا شروع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے سرد علاقوں سے لوگ فروری کے مہینے میں سبی آتے تھے اور یہاں کاروباری و دیگر سماجی سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں۔ لوگوں کے یہاں اجتماع کو دیکھتے ہوئے ایک باقاعدہ میلے کا اہتمام کیا جانے لگا۔
’’اس وقت پھر بہت سے قبائل کے لوگ اور ان کے سردار بھی یہاں جمع ہوتے تھے اور مختلف قبائلی جھگڑوں کے تصفیے بھی کروائے جاتے تھے۔‘‘
کاشتکاری اور مال مویشی کی خریدو فروخت سے منسلک لوگ اس میلے کے خاص طور پر منتظر رہتے ہیں کیونکہ یہ میلہ ان کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔
صوبائی وزیر میر اظہار حسین کھوسہ نے اس میلے کی افادیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ جہاں اس سے ثقافت اجاگر ہوتی ہے وہیں لوگوں کو آپس میں ملنے جلنے کا موقع بھی ملتا ہے۔
انھوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ سبی میلے کی طرز پر صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی میلے منعقد ہونے چاہیئں جس کے لیے ان کے بقول وہ حکومتی سطح پر کوشش بھی کریں گے۔
قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پسماندہ ترین صوبے بلوچستان میں حالیہ برسوں میں امن و امان کی صورتحال بھی غیر تسلی بخش رہی ہے جس سے یہاں ثقافتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی رہی ہیں۔
لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ میلے اور ایسی ثقافتی سرگرمیاں لوگوں کے درمیان امن و آشتی کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کرسکتی ہیں لہذا ان کے اہتمام کے لیے خصوصی اقدامات کیے جانے چاہیئں۔
سرکاری طور پر سبی میلہ 28 فروری تک جاری رہے گا لیکن یہاں آنے والوں کی سرگرمیاں مارچ کے پہلے عشرے تک جاری رہتی ہیں۔