''میرا بیٹا کہتا تھا کہ ابو یہ جگہ بہت پرسکون ہے، لوگ اسے دنیا میں جنت سمجھتے ہیں۔ کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ ایسی جگہ بھی یہ سانحہ ہو سکتا ہے۔ اس شخص کو تو شاید ایسا لگ رہا ہو کہ وہ کوئی خونی گیم کھیل رہا ہے لیکن اسکی وجہ سے جو ہم ساٹھ ستر خاندانوں کی دنیا اجڑ گئی اسکا ازالہ کیسے ممکن ہے؟''
یہ الفاظ ہیں 26 برس کے نوجوان اریب احمد کے والد ایاز احمد کے جو بیٹے کی موت سے غمزدہ بھی ہیں اور مایوس بھی۔
فیڈرل بی ایریا کے رہائشی اریب احمد پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاونٹنٹ تھے اور اپنے گھر کے واحد کفیل بھی۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے کم عمری میں ہی محنت شروع کر دی تھی۔
اریب کے ماموں مظفر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ خاندان بھر میں اریب کی ذہانت اور کردار کی مثال دی جاتی تھی۔ ان کے بھانجے نے تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کے لئے دن رات محنت کی۔ یہی وجہ ہے کہ سی اے مکمل کرنے کے بعد انھیں ایک بہترین نوکری ملی اور کمپنی نے انھیں نیوزی لینڈ تعینات کیا۔
اریب کی قابلیت اور انتھک محنت کا صلہ اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا تھا کہ وہ کم عمری میں ہی اس منصب پر پہنچے جہاں پہنچنے کے لئے نوجوان خواب دیکھا کرتے ہیں۔ لیکن اس واقعے نے تو ہم سب کا حوصلہ توڑ دیا۔
سلمان، اریب کے کزن ہیں۔ اپنے بھائی جیسے دوست کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اریب زندہ دل انسان تھے اور لوگوں کے ساتھ گھل مل جاتے تھے۔ ہمارا اکثر فون پر رابطہ تو رہتا تھا لیکن ابھی کچھ عرصہ پہلے جب وہ پاکستان آئے تو ہم سب کزن مل کر بیٹھے اور ہم نے پرانی یادیں تازہ کیں۔
کرائسٹ چرچ میں ہونے والے اس واقعے نے جہاں پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا وہیں اس سے متاثرہ خاندانوں کا غم ہے کہ کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
اریب کے والد نے بظاہر تو خود کو سنبھالا ہوا ہے لیکن اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کے سبب وہ بری طرح ٹوٹ چکے ہیں۔ جس روز سے انکے بیٹے کی موت کی تصدیق ہوئی ہے انکے گھر تعزیت کرنے والوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب اریب کے جسد خاکی کو جلد از جلد وطن واپس لانے کے لئے دفتر خارجہ کے نمائندگان بھی ایاز احمد سے براہ راست رابطے میں ہیں ۔
ایاز احمد نے وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں نیوزی لینڈ کی حکومت کا شکریہ ادا کیا اور انکی وزیر اعظم جیکینڈا ارڈرن کی جانب سے حملہ آور کو دہشت گرد قر ار دینے پر اطمینان کا اظہار کیا۔
اب وہ اپنے بیٹے کی میت کا انتظار کر رہے ہیں اور گھر آکر تعزیت کرنے والوں سے بہت حوصلے سے مل رہے ہیں جن میں حکومتی سطح پر اعلیٰ شخصیات بھی شامل ہیں۔
اس سانحے سے متاثرہ کراچی کا ایک اور خاندان بھی ہے جس کے ایک ہی گھر کے تین افراد حملہ آوار کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
مریم علی کے اکلوتے بھائی ذیشان رضا گزشتہ چار برس سے نیوزی لینڈ میں مقیم تھے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھے اور پھر اعلیٰ ملازمت کے حصول کے لئے دیار غیر جا بسے۔
ڈیڑھ ماہ قبل انھوں نے اپنے والدین کو بہت ضد کرکے اپنے پاس بلایا تھا۔ جمعہ کے روز وہ اپنے والد غلام حسین اور والدہ کرم بی بی کے ہمراہ نماز کی ادائیگی کے لئے اسی مسجد میں گئے جہاں یہ واقعہ رونما ہوا۔
مریم کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتی تھی کہ انکے عزیز بھائی کے ساتھ ساتھ انکے والدین کا بھی یہ سفر، سفر آخر بن جائے گا۔
37 سالہ ذیشان رضا ملیر کے رہائشی تھے۔ لیکن اب اس گھر میں ویرانی اور اداسی کے سوا کچھ نہیں۔ اب لوگ افسوس کے لئے مریم کے گھر آرہے ہیں۔
ہنستے بستے گھر کے تین افراد ایسے چلے جائیں گے اسکا یقین مریم کے ساتھ ساتھ انکے شوہر اور دیگر رشتے داروں کو بھی نہیں آرہا۔ مریم کے گھر اس افسوسناک واقعے پر تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔
ذیشان کے بہنوئی ڈاکٹر علی بیگ نے بتایا کہ جمعرات کے روز انکی بیگم کی اپنے والدین سے اور بچوں کی نانا نانی سے بات چیت ہوئی تھی۔
جمعے کے روز جب یہ واقعہ ہوا تو اس وقت تک کچھ پاکستانیوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات تھیں تاہم چوبیس گھنٹوں کے بعد نیوزی لینڈ میں مقیم ذیشان کے حلقہ احباب نے ڈاکٹر علی سے رابط کر کے انھیں اس افسوسناک خبر سے آگاہ کیا۔
مریم علی نے اپنے بھائی اور والدین کی تدفین نیوزی لینڈ میں ہی کرنے کی اجازت دے دی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ موت کے بعد جسد خاکی کی تدفین میں تاخیر کرنا مناسب نہیں۔ انکے لئے یہ غم بہت بڑا ہے کہ ایک لمحے میں ہی انھوں نے اپنے تین انمول رشتوں کو کھو دیا۔
'' اس واقعے نے بتادیا کہ دہشت گردی سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں۔ میرے بھائی جب وہاں تھے تو انکا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ پر امن اور بہتر جگہ کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ لیکن آج وہ ہم میں نہیں۔
یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے مریم کی آواز میں کرب تھا اور اپنوں کے بچھڑنے کا غم بھی لیکن ان کا حوصلہ اور صبر کسی طور کم نہ تھا۔