بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں متنازع شہریت بل کے خلاف پرتشدد مظاہروں میں ایک پولیس کانسٹیبل کی ہلاکت جب کہ ایک ڈی سی پی رینک کے پولیس افسر زخمی ہو گئے ہیں۔
یہ پرتشدد واقعات ایسے وقت میں ہوئے جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ دو روزہ دورے پر پیر کو احمد آباد پہنچے ہیں۔
نئی دہلی کے شمال مشرقی علاقے جعفرآباد میں پیر کو اچانک ہنگامے پھوٹ پڑے۔ جب متنازع شہریت بل کے مخالف اور حامی آمنے سامنے آ گئے۔ اس دوران مظاہرین نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔
ہنگامہ آرائی کے دوران ایک پولیس کانسٹیبل ہلاک ہو گیا جب کہ ایک ڈی ایس پی بھی زخمی ہوا۔ حکام کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پرتشدد مظاہروں کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔
نئی دہلی کے علاقے مسلم اکثریتی علاقے جعفرآباد، موج پور اور چاند باغ مظاہروں کی زد میں رہے۔ دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔ اس دوران دکانوں، مکانات اور گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔ پورا علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا۔
اتوار کے روز بھی جعفرآباد میں تصادم ہوا تھا۔ وہاں میٹرو اسٹیشن کے نیچے کم از کم ایک ہزار مسلم خواتین نے شہریت بل کے خلاف دھرنا دے دیا۔ جس کے بعد بعد حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رہنما کپل مشرا کم از کم پانچ سو ہندوؤں کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔
ان افراد نے 'جے شری رام' اور شہریت بل کی حمایت میں نعرے لگائے۔ اس موقع پر بھی دونوں گروپوں میں ٹکراؤ ہوا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور شیلنگ کی۔
کپل مشرا نے پولیس کی موجودگی میں دھمکی دی کہ اگر تین روز کے اندر یہ راستہ نہیں کھلا تو پھر وہ لوگ کسی کی نہیں سنیں گے اور جو سمجھ میں آئے گا کریں گے۔ ان کی اس دھمکی کی وجہ سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی۔
نیوز چینلز اور سوشل میڈیا میں ایسی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں دونوں گروپوں کو پتھر اور ڈیوائڈر سے کنکریٹ کے ٹکڑے توڑتے اور ایک دوسرے پر پتھراو کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک ویڈیو میں لوگوں کو جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے بھی سنا جا سکتا ہے۔
دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجری وال نے ان واقعات کو پریشان کن قرار دیا ہے۔ اُنہوں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دارالحکومت میں امن و امان بحال کیا جائے۔
یاد رہے کہ دہلی پولیس دہلی حکومت کے بجائے مرکزی وزیر داخلہ کے ماتحت آتی ہے۔
نئی دہلی کے لیفٹننٹ گورنر نے دہلی پولیس کو ہدایت دی ہے کہ وہ امن و امان بحال کرے۔
بھارت میں گزشتہ سال دسمبر سے متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ جس میں درجنوں افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔
یہ احتجاج اُس وقت شروع ہوا جب 12 دسمبر کو بھارتی پارلیمان نے شہریت ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کیا تھا۔ بل کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانسان سے مذہب کی بنیاد پر جبر کا شکار ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، جین اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارتی شہریت دینے کی منظوری دی گئی تھی۔ لیکن مسلمانوں کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔
بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے مذکورہ بل کو مسترد کرتے ہوئے اسے بھارت کے سیکولر تشخص کے خلاف قرار دیا تھا۔