عدالتی اُمور میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا الزام: 'یہ تاثر کیسے دیا جا سکتا ہے کہ آج کچھ نہیں ہو رہا'

  • میرے چیف جسٹس ہوتے ہوئے کہیں کوئی مداخلت ہے تو میرے نوٹس میں لائیں: جسٹس فائز عیسیٰ
  • ججز اپنے چیف جسٹس کو بتائیں اور وہ کچھ نہ کرے تو اس کا بھی کچھ کرنا چاہیے: جسٹس منصور علی شاہ

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا ہے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق بدھ کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کی سماعت کے لیے دیگر ججز اسلام آباد میں موجود نہیں تھے اس لیے دستیاب ججز کی بنیاد پر بینچ بنایا۔

جسٹَس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس وقت کچھ ججز لاہور اور کچھ کراچی میں ہیں۔ ممکن ہے کہ اگلی بار ہم سب ایک ساتھ بیٹھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے خط کے معاملے میں ہر موڑ پر سنجیدگی ہے۔ وہ باقی ججز سے مشاورت کے بعد حتمی تاریخ بتا دیں گے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کردہ ایک خط میں مطالبہ کیا تھا کہ خفیہ اداروں کی جانب سے ججز پر اثر انداز ہونے اور مبینہ مداخلت کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔

خط لکھنے والے ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔

اس معاملے پر چیف جسٹس نے وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی تھی جس کے بعد وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔

انکوائری کمیشن کی سربراہی سابق چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی کو سونپی گئی تھی جنہوں نے بعدازاں اس سے معذرت کر لی تھی۔

سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سات رُکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

'عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا'

دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پٹیشن دائر ہونے سے پہلے اخبار میں چھپ جاتی ہے، کیا یہ بھی پریشر ڈالنے کا طریقہ ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ جس دن ہائی کورٹ کے ججز کا خط آیا اسی روز ججز سے ملاقات کی۔ ہم اس معاملے کو اہمیت نہ دیتے تو کیا یہ میٹنگ رمضان کے بعد نہیں ہو سکتی تھی؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز کے خط کے بعد ہم وکلا کے منتخب نمائندوں سے ملے۔ ہو سکتا ہے وہ آپ کو پسند نہ ہوں مگر وہ آپ کے جمہوری نمائندے ہیں۔ وکلا سے ملنے کے بعد ہم نے فل کورٹ میٹنگ بلائی، اس سے پہلے چار سال فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ طے ہوا تھا کہ ہم وزیراعظم سے انتظامی سائیڈ پر آفیشل میٹنگ کریں گے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے وہ وضاحت دینا چاہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ججز کے خط کے معاملے کی تحقیقات کے لیے حکومت کوئی اپنا کمیشن بنا رہی ہے، یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ حکومت نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا کسی فیڈرل سیکریٹری سے تحقیقات کرائیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحقیقات کے لیے حکومت نے سابق چیف جسٹس کا نام دیا۔ جن دوستوں نے اس پر بات کی انہوں نے شاید کمیشن آف انکوائری ایکٹ نہیں پڑھا نہیں۔

'آئین کو ناقابلِ عمل بنایا جا رہا ہے'

دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کو ناقابلِ عمل بنایا جا رہا ہے۔ اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے، کیا آج انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی؟

اُن کا کہنا تھا کہ یہ تاثر کیسے دیا جا سکتا ہے کہ آج کچھ نہیں ہو رہا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آج کیا ہو رہا ہے خط میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ میرے ہوتے ہوئے مداخلت ہو تو خود کو احتساب کے لیے پیش کروں گا۔ سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا ہے اب کچھ تو کرنا ہی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ججز اپنے چیف جسٹس کو بتائیں اور وہ کچھ نہ کرے تو اس کا بھی کچھ کرنا چاہیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ماضی میں جو ہوا اس سے سبق سیکھیں لیکن مستقبل کے لیے لائحہ عمل بنائیں۔ ججز کے اس خط کو عدلیہ کی آزادی کے لیے سنہری موقع سمجھنا چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے چیف جسٹس ہوتے ہوئے کہیں کوئی مداخلت ہے تو میرے نوٹس میں لائیں۔ میرے نوٹس میں لائیں پھر دیکھیں ہوتا کیا ہے۔

عدالت نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت 29 اپریل تک کے لیے ملتوی کر دی۔

سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے ججز کو بھی دھمکی آمیز خط موصول

اسلام آباد ہائی کورٹ کے آٹھ ججز کو دھمکی آمیز خطوط ملنے کے معاملے کے دوران ڈی آئی جی اسلام آباد شہزاد فاروق نے بتایا کہ چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے چار ججز کو بھی اسی نوعیت کے خطوط موصول ہوئے ہیں۔

بدھ کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں پیشی کے دوران ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس امین الدین کو یکم اپریل کو خط موصول ہوئے۔

اُن کے بقول چاروں خطوط میں پاوڈر پایا گیا اور دھمکی آمیز اشکال بنی ہوئی تھیں۔ خطوط کو کاونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

دوسری جانب ڈی آئی جی آپریشنز لاہور نے بھی لاہور ہائی کورٹ کے چار ججز کو اسی نوعیت کے خطوط ملنے کی تصدیق کی ہے۔

واضح رہے کہ منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت آٹھ ججز کو مبینہ طور پر زہریلے سفوف والے خطوط موصول ہوئے تھے۔