عبوری صدر عدلی منصور نے جمعے کو پارلیمان کے ایوانِ بالا تحلیل کرنے کے حکم نامے پر دستخط کردیے ہیں۔
واشنگٹن —
مصر میں فوج کی جانب سے ملک کے اسلام پسند صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنےکے خلاف ان کےحامیوں کی جانب سے سخت احتجاج کیا جارہا ہے جب کہ عبوری حکومت نے اسلام پسندوں کی اکثریت والی منتخب پارلیمان بھی تحلیل کردی ہے۔
مصر کے سرکاری ٹی وی کے مطابق عبوری صدر عدلی منصور نے جمعے کو پارلیمان کے ایوانِ بالا تحلیل کرنے کے حکم نامے پر دستخط کردیے ہیں۔
عدلی منصور مصر کی آئینی عدالت کے چیف جسٹس ہیں جنہوں نے صدر مرسی کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد جمعرات کو ملک کے عبوری صدر کا حلف اٹھایا تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس جون میں صدر مرسی کے انتخاب سے چند روز قبل اس وقت کی فوجی حکومت نے پارلیمان کے منتخب ایوانِ زیریں کو بھی تحلیل کردیا تھا جس کے بعد سے صرف ایوانِ بالا ہی کام کر رہا تھا۔
پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں صدر مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' اور اس کی ہم خیال اسلام پسندوں جماعتوں کو فیصلہ کن اکثریت حاصل تھی۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق جمعے کو ملک کے مختلف شہروں میں صدر مرسی کے ہزاروں حامیوں نے مظاہرے کیے جن کی کئی مقامات پر سیکیورٹی فورسز اور مخالفین کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔
مظاہروں کی اپیل 'اخوان المسلمون' نے کی تھی جس نے فوجی اقدام کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔
اخوان کے سیاسی ونگ کے نائب سربراہ عصام العریان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت صدر مرسی کی برطرفی اور آئین کی معطلی کو مسترد کرتی ہے اور فوج کی حمایت سے بننے والی عبوری حکومت کو نہ تسلیم کرے گی اور نہ اس کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت کی جائے گی۔
بدھ کی شام صدر مرسی کا تختہ الٹے جانے اور ملک کے آئین کو معطل کیے جانے کے بعد سے اخوان کے رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف مصر کی فوج اور پولیس کا کریک ڈائون جاری ہے جس کے دوران میں اب تک سیکڑوں افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ محمد مرسی بھی فوج کی تحویل میں ہیں جنہیں ایک فوجی بیرک میں رکھا گیا ہے۔ ملک کی عبوری انتظامیہ نے سابق صدر سمیت اخوان کے کئی رہنمائوں کے بیرونِ ملک جانے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
جمعے کو ہونے والے احتجاج کے دوران میں دارالحکومت قاہرہ میں سابق صدر کے ہزاروں حامیوں پر فوجی اہلکاروں کی فائرنگ سے کم از کم تین افراد ہلاک ہوگئ ۔
فائرنگ کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب محمد مرسی کے ہزاروں حامیوں نے صدر کے محافظوں کے زیرِ استعمال اس عمارت کی جانب بڑھنے کی کوشش کی جہاں مبینہ طور پر سابق صدر قید ہیں۔
لیکن مصری فوج کے ایک ترجمان نے عینی شاہدین کے ان دعووں کی تردید کی ہے کہ مظاہرین فوجی اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ عمارت کے نزدیک تعینات فوجیوں نے مظاہرین پر صرف گولیوں کے خول اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے تھے۔
فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرین کا سب سے بڑا اجتماع دارالحکومت قاہرہ کے علاقے نصر سٹی کی جامع مسجد کے نزدیک ہوا جہاں صدر کے ہزاروں حامیوں نے فوج کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے اور مرتے دم تک محمد مرسی کے ساتھ کھڑے رہنے کا عہد کیا۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق قاہرہ کے کئی مقامات پر فوج کی بھاری نفری تعینات ہے۔ فوجی دستے زقازیق کے علاقے میں بھی تعینات کردیے گئے ہیں جہاں صدر کےحامیوں اور مخالفین کے درمیان شدید جھڑپیں ہورہی تھیں۔
اطلاعات کے مطابق فوج کی تعیناتی کے بعد بھی علاقہ فائرنگ اور پتھراؤکی آوازوں سے گونج رہا ہے۔
اسکندریہ اور اسیوط سمیت مصر کے کئی دیگر شہروں میں بھی اسلام پسند جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں نے منتخب صدر کی برطرفی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔
جمعے کو اسرائیل کی سرحد سے منسلک صحرائے سینا کے علاقے میں مسلح افراد نے ایک پولیس اسٹیشن اور مقامی ہوائی اڈے کے نزدیک قائم فوجی چیک پوسٹوں پر راکٹ حملے کیے جن میں فوجی حکام کے مطابق ایک اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوگئے ہیں۔
مصر کی لبرل حزبِ اختلاف نے اسلام پسندوں کے مظاہروں کے جواب میں اپنے کارکنوں سے سڑکوں پر آنے کی "فوری اپیل" کی ہے جس کے بعد ملک میں محاذ آرائی اور تصادم میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
مصر کے ایک فوجی افسر نے برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے ساتھ گفتگو میں عندیہ دیا ہے کہ فوج مظاہرین پر قابو پانے کی غرض سے مظاہروں والے علاقوں میں فوجی دستوں کی تعیناتی کے علاوہ جنگی طیاروں کی مدد بھی لے سکتی ہے۔
مصر کے سرکاری ٹی وی کے مطابق عبوری صدر عدلی منصور نے جمعے کو پارلیمان کے ایوانِ بالا تحلیل کرنے کے حکم نامے پر دستخط کردیے ہیں۔
عدلی منصور مصر کی آئینی عدالت کے چیف جسٹس ہیں جنہوں نے صدر مرسی کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد جمعرات کو ملک کے عبوری صدر کا حلف اٹھایا تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس جون میں صدر مرسی کے انتخاب سے چند روز قبل اس وقت کی فوجی حکومت نے پارلیمان کے منتخب ایوانِ زیریں کو بھی تحلیل کردیا تھا جس کے بعد سے صرف ایوانِ بالا ہی کام کر رہا تھا۔
پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں صدر مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' اور اس کی ہم خیال اسلام پسندوں جماعتوں کو فیصلہ کن اکثریت حاصل تھی۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق جمعے کو ملک کے مختلف شہروں میں صدر مرسی کے ہزاروں حامیوں نے مظاہرے کیے جن کی کئی مقامات پر سیکیورٹی فورسز اور مخالفین کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔
اخوان کے سیاسی ونگ کے نائب سربراہ عصام العریان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت صدر مرسی کی برطرفی اور آئین کی معطلی کو مسترد کرتی ہے اور فوج کی حمایت سے بننے والی عبوری حکومت کو نہ تسلیم کرے گی اور نہ اس کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت کی جائے گی۔
بدھ کی شام صدر مرسی کا تختہ الٹے جانے اور ملک کے آئین کو معطل کیے جانے کے بعد سے اخوان کے رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف مصر کی فوج اور پولیس کا کریک ڈائون جاری ہے جس کے دوران میں اب تک سیکڑوں افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ محمد مرسی بھی فوج کی تحویل میں ہیں جنہیں ایک فوجی بیرک میں رکھا گیا ہے۔ ملک کی عبوری انتظامیہ نے سابق صدر سمیت اخوان کے کئی رہنمائوں کے بیرونِ ملک جانے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
جمعے کو ہونے والے احتجاج کے دوران میں دارالحکومت قاہرہ میں سابق صدر کے ہزاروں حامیوں پر فوجی اہلکاروں کی فائرنگ سے کم از کم تین افراد ہلاک ہوگئ ۔
فائرنگ کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب محمد مرسی کے ہزاروں حامیوں نے صدر کے محافظوں کے زیرِ استعمال اس عمارت کی جانب بڑھنے کی کوشش کی جہاں مبینہ طور پر سابق صدر قید ہیں۔
لیکن مصری فوج کے ایک ترجمان نے عینی شاہدین کے ان دعووں کی تردید کی ہے کہ مظاہرین فوجی اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ عمارت کے نزدیک تعینات فوجیوں نے مظاہرین پر صرف گولیوں کے خول اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے تھے۔
فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرین کا سب سے بڑا اجتماع دارالحکومت قاہرہ کے علاقے نصر سٹی کی جامع مسجد کے نزدیک ہوا جہاں صدر کے ہزاروں حامیوں نے فوج کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے اور مرتے دم تک محمد مرسی کے ساتھ کھڑے رہنے کا عہد کیا۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق قاہرہ کے کئی مقامات پر فوج کی بھاری نفری تعینات ہے۔ فوجی دستے زقازیق کے علاقے میں بھی تعینات کردیے گئے ہیں جہاں صدر کےحامیوں اور مخالفین کے درمیان شدید جھڑپیں ہورہی تھیں۔
اطلاعات کے مطابق فوج کی تعیناتی کے بعد بھی علاقہ فائرنگ اور پتھراؤکی آوازوں سے گونج رہا ہے۔
اسکندریہ اور اسیوط سمیت مصر کے کئی دیگر شہروں میں بھی اسلام پسند جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں نے منتخب صدر کی برطرفی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔
جمعے کو اسرائیل کی سرحد سے منسلک صحرائے سینا کے علاقے میں مسلح افراد نے ایک پولیس اسٹیشن اور مقامی ہوائی اڈے کے نزدیک قائم فوجی چیک پوسٹوں پر راکٹ حملے کیے جن میں فوجی حکام کے مطابق ایک اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوگئے ہیں۔
مصر کی لبرل حزبِ اختلاف نے اسلام پسندوں کے مظاہروں کے جواب میں اپنے کارکنوں سے سڑکوں پر آنے کی "فوری اپیل" کی ہے جس کے بعد ملک میں محاذ آرائی اور تصادم میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
مصر کے ایک فوجی افسر نے برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے ساتھ گفتگو میں عندیہ دیا ہے کہ فوج مظاہرین پر قابو پانے کی غرض سے مظاہروں والے علاقوں میں فوجی دستوں کی تعیناتی کے علاوہ جنگی طیاروں کی مدد بھی لے سکتی ہے۔