گرین انرجی کی ری سائیکلنگ، بھارت میں ابھرتا ہوا منافع بخش کاروبار

الیکٹرک گاڑیوں کی ناکارہ بیٹریوں کی ری سائیکلنگ سے تیار ہونے والا بیٹری پیک بجلی جانے پر بھارت کے کنچناہلی گاؤں کے ایک گیراج میں قائم اس فیکٹری کا پہیہ رواں رکھتا ہے۔ بھارت میں گرین انرجی اور اس کی ری سائیکلنگ کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔

  • بھارت میں سولر پینلز، ونڈ ٹربائنز اور گرین انرجی کے دوسرے آلات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
  • گرین انرجی میں استعمال ہونے والی چیزوں کے کچرے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
  • اس وقت بھارت میں سالانہ 100 کلوٹن الیکٹرانک کچرا پیدا ہو رہا ہے جو 2030 تک 340 کلوٹن تک پہنچ جائے گا۔
  • بھارت میں کئی کمپنیاں الیکٹرانک گاڑیوں کی استعمال شدہ بیٹریوں کی ری سائیکلنگ کر کے ان سے بیٹری پیک بنا رہی ہیں، جو بجلی کی فراہمی معطل ہونے پر کئی گھنٹوں تک برقی رو فراہم کرتے ہیں۔
  • بھارت گرین انرجی کے 95 فی صد آلات درآمد کرتا ہے۔
  • ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت الیکٹرانک ری سائیکلنگ کو فروغ دے کر گرین انرجی کے آلات کی درآمد کے 90 فی صد اخراجات بچا سکتی ہے۔
  • ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ الیکٹرانک ری سائیکلنگ کے فروغ سے بڑی تعداد میں روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

جنوبی بھارت کے ایک گھنے جنگل کے قریب ایک چھوٹے سے گیراج میں چھ خواتین خودکار سلائی مشینوں پر کپڑے کے تھیلے، پتلونیں، اسپتال میں استعمال ہونے والے گاؤن اور دفتروں کی یونیفام سی رہی ہیں۔ ان کا کام بلا روک ٹوک جاری ہے۔

لیکن تقریباً چار سال پہلے ایسا نہیں تھا۔بجلی بند ہونے سے ان کے کام میں خلل پڑتا رہتا تھا۔ کبھی موسلادھار بارش کی وجہ سے بجلی جاتی رہتی تھی، کبھی گرمیوں میں ایئر کنڈیشنرز کا استعمال بڑھنے سے گرڈ اسٹیشن ٹرپ ک رجاتا تھا۔ کبھی کسی اور وجہ سے بجلی کی سپلائی میں خلل پڑ جاتا تھا اور ان کا کام رک جاتا تھا۔

لیکن اب انہوں نے بجلی کے اس مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔ گیراج کے کونے میں کالے رنگ کا ایک چھوٹا سا بکس پڑا ہے ۔اب بجلی جانے سے کام نہیں رکتا۔ کیونکہ وہ چھوٹا سے جادوئی بکس برقی رو رکتے ہی فعال ہو جاتا ہے اور بجلی فراہم کرنا شروع کر دیتا ہے۔

یہ چھوٹا سا بیٹری پیک، گاڑیوں کی استعمال شدہ بیٹریوں سے بنایا گیا ہے اور ان اوقات میں گیراج کی روشیناں آن اور سلائی مشینوں کی روانی جاری رکھتا ہے، جب بجلی چلی جاتی ہے۔

اس گیراج میں کام کرنے والی چھ خواتین میں گوری بھی شامل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ’ بیڑی پیک‘ ہمارے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ پہلے جب بجلی جاتی تھی تو ہمیں سلائی کا کام اپنے ہاتھوں سے کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اب فکر کی کوئی بات نہیں رہی۔ یہ ڈبہ بجلی کی فراہمی جاری رکھتا ہے اور اب ہم اپنے تمام آرڈرز وقت پر پورے کر سکتی ہیں۔

نونم پیک فیکٹری کے کارکن الیکٹرک کار کی ناکارہ بیٹریوں کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ 8 اکتوبر 2024

بھارت میں سبھی ان چھ خواتین کی طرح خوش قسمت نہیں ہیں کیونکہ سب کے پاس بجلی جانے کی صورت میں متبادل بندوبست موجود نہیں ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں اس طرح کی چیزوں کی فراہمی اور استعمال مسلسل بڑھ رہا ہے۔

بھارت میں شمسی توانائی کے پینلز اور ہوا سے پیدا توانائی یا ونڈ ٹربائنز کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ سڑکوں پر بیڑی سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی کے اس متبادل ذریعے کو گرین انرجی یا صاف توانائی کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے بجلی حاصل کرنے کے لیے تیل یا گیس نہیں جلانی پڑتی۔

تیل اور گیس جلانے سے کاربن گیسیں پیدا ہوتی ہیں جو فضا میں بلند ہو کر ہمارے ہوائی کرے کو ڈھانپ لیتی ہیں جس سے زمین کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ اس تبدیلی کو ماہرین گلوبل وارمنگ کا نام دیتے ہیں۔

زندگی کو رواں رکھنے کے لیے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال ہوتا ہے۔ جس سے نکلنے والی کاربن گیسیں زمین کو مسلسل گرم کر رہی ہیں۔

زمین گرم ہونے سے ہر سال گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے۔ سمندروں کے طوفانوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ زیادہ خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔ درجہ حرارت بڑھنے سے پہاڑوں پر جمے گلیشیئر اور برف تیزی سے پگھل رہی ہے جس سے دریاؤں میں زیادہ سیلاب آ رہے ہیں۔ کہیں زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں تو کہیں خشک سالی اور قحط نے ڈیرے جما لیے ہیں۔

نونم فیکٹری کا ری سائیکلنگ یونٹ بیڑی پیک کے آخری مراحل میں۔ 8 اکتوبر 2024

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر زمین کو گرم ہونے سے نہ روکا گیا تو اس صدی کے آخر تک یہ رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔

کارخانے، فیکٹریاں اور گاڑیاں چلانے اور گھروں کے چولہے روشن رکھنے کے لیے تیل، گیس، کوئلہ اور لکڑی استعمال ہوتی ہے۔ انہیں معدنی ایندھن کہا جاتا ہے۔معدنی ایندھن ہی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے عفریت پر قابو پانے کے لیے معدنی ایندھن کا استعمال گھٹانا اور صاف توانائی کا استعمال بڑھانا بہت ضروری ہے۔

صاف توانائی حاصل کرنے کے بڑے ذرائع میں سولر پینلز اور ونڈ ٹربائن ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ بھی مسائل جڑے ہیں۔ ان آلات کی زندگی 20 سے 30 سال ہوتی ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی خراب ہو سکتے ہیں۔ خراب اور ناکارہ ہونے پر ان کی حیثیت کچرے کی سی رہ جاتی ہے۔ اس کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان چیزوں کو بنانے میں خاص قسم کے کیمکلز، مرکبات اور معدنیات استعمال کی جاتی ہیں۔ انہیں عام کچرے کی طرح زمین میں دبا کر ٹھکانے نہیں لگایا جا سکتا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جس رفتار سے گرین انرجی پیدا کرنے کے آلات بڑھ رہے ہیں، ان کے کچرے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت ان ملکوں میں شامل ہے جہاں صنعتی معیشت تیزی سے پھیل رہی ہے اور گرین انرجی کی پیدوار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ آنے والے برسوں میں گرین انرجی کے آلات مثال کے طور پر شمسی پینلز، ونڈ ٹربائن، بجلی اسٹور کرنے والی بیٹریاں اور ان سے منسلک دیگر آلات کا کچرا سالانہ لاکھوں ٹن تک پہنچنے کا امکان ہے۔جنہیں ٹھکانے لگانے اور دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے طریقے ڈھونڈنے اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

ایک ڈیزائن انجنیئر سنکارامنچی ری سائیکل بیٹری پیک کے ڈیزائن پر کام کر رہے ہیں۔ 8 اکتوبر 2024

ماہرین کہتے ہیں کہ گرین انرجی کے کچرے کو ری سائیکل کرنے سے دوہرے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ جس سے نہ صرف اس کچرے میں کمی آئے گی بلکہ ان کے دوبارہ قابل استعمال ہونے سے، ان آلات کی تیاری میں درکار اہم معدنیات کو بیرونِ ملک سے منگوانے کی ضرورت میں بھی کمی آئے گی۔ جن ممالک میں یہ معدنیات پیدا نہیں ہوتیں، انہیں ان کی درآمد پر کثیر زرمبادلہ صرف کرنا پڑتا ہے۔

بھارت میں اس وقت زیادہ تر شمسی پینلز، بیٹریاں اور گرین انرجی کے دیگر آلات کا کچرا زمین میں دبا دیا جاتا ہے۔ تاہم کئی جگہوں پر اسے ری سائیکل بھی کیا جا رہا ہے۔ اور کچھ نئی کمپنیاں اور کاروباری گروپ کچرے میں سے قیمتی اجزا نکالنے کے لیے ری سائیکلنگ کے جدید طریقے متعارف کروا رہے ہیں۔ جن میں الیکٹرک گاڑیوں کی استعمال شدہ بیٹریوں سے تیار ہونے والے ’بیٹری پیک‘ بھی شامل ہیں۔

گرین انرجی کے آلات کی ری سائیکلنگ سے فیض یاب ہونے والوں میں کنچناہلی کے ایک گیراج میں کام کرنے والی وہ چھ خواتین بھی شامل ہیں جن کا کام اب بجلی جانے سے رکتا نہیں ہے۔

32 سالہ گوری کا کہنا ہے کہ ٹیلرنگ کے کام سے اسے بلا تعطل آمدنی حاصل ہو رہی ہے جس نے اسے اپنے تین بچوں کے لیے ایک نیا گھر بنانے میں مدد دی ہے۔

اس کا مزید کہنا تھا کہ، اس کام نے گیراج میں کام کرنے والی تمام خواتین کی زندگیوں کو بدل دیا ہے۔

کوچن انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب کارکن سولر پینلز نصب کر رہے ہیں، جس کے بعد یہ دنیا کا پہلا ایسا ایئرپورٹ بن گیا ہے جو گرین انرجی پر کام کرتا ہے۔ 25 اگست 2022

گوری کو یہ بیٹری پیک، بیٹریوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے والی ایک کمپنی نونم نے فراہم کیا تھا۔ لیتھیم آئن کا یہ بیٹری پیک بجلی جانے کی صورت میں مسلسل چھ گھنٹوں تک بجلی فراہم کر سکتا ہے۔

نونم کمپنی کے ایک انجینئر پرتھوی راج نریندر نے بتایا کہ ان کا یہ بیٹری پیک چھوٹی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہے۔ اسے الیکٹرک گاڑیوں کی ناکارہ بیڑیوں کو دوبارہ قابل استعمال کر کے تیار کیا گیا ہے۔

بھارت میں ناکارہ بیٹریوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کی صنعت ترقی کر رہی ہے۔ بنگلور کے الیکٹرانک سٹی علاقے میں قائم نونم کمپنی میں دو درجن کارکن کام کرتے ہیں۔ وہ کاروں اور تین پہیوں والی گاڑیوں کی ناکارہ بیٹریوں کو دوبارہ استعمال کے قابل بناتے ہیں۔نریندر نے بتایا کہ ان کی کمپنی اس سال کے آخر تک بیٹریوں کو دوبارہ قابل استعمال بنا کر ایک گیگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ بجلی کی یہ مقدار ان دس لاکھ گھروں اور چھوٹے کاروباروں کی ایک سال کی ضروریات پوری کرنے کےلیے کافی ہے جنہیں بجلی میں خلل کا سامنا رہتا ہے۔

گرین انرجی کا کچرا

بھارت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ان ملکوں میں بھی شامل ہے جو سب سے زیادہ کاربن گیسیں خارج کرتے ہیں۔ بھارت میں بجلی معدنی ایندھن اور ماحول دوست ذرائع سے بھی تیار کی جاتی ہے۔

سولر پینلز کی عمر کا تخمینہ 20 سے 30 سال ہے جس کے بعد وہ ناکارہ ہو جاتے ہیں ۔ ایک اور اندازے کے مطابق بھارت میں ہر سال گرین انرجی سے منسلک آلات کا 100 کلو ٹن کچرا پیدا ہو رہا ہے جو 2030 تک بڑھ کر 340 کلوٹن سالانہ ہو جائے گا۔

دنیا میں ہر سال لاکھوں ٹن الیکٹرانک کچرا پیدا ہوتا ہے، جس کے زیادہ تر حصے کو ری سائیکل کر کے دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے۔

سولر پاور سیکٹر میں گزشتہ 30 برسوں سے کام کرنے والے آدرش داس کہتے ہیں کہ گرین انرجی کے کچرے کا مسئلہ ابھی زیادہ بڑا نہیں ہے لیکن جیسے جیسے سولر پینلز اور دیگر آلات کی تعداد بڑھے گی، کچرے کا معاملہ بھی بڑھتا جائے گا۔

بھارت اس عشرے کے آخر تک 500 گیگا واٹ گرین انرجی پیدا کرنے کا عزم رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ سولر سیل، پینلز اور ونڈ ٹربائن جیسے گرین انرجی کے آلات تیار کرنے کا عالمی مرکز بھی بننا چاہتا ہے۔

بھارت کی حکومت نے برقی کچرے کے اپنے ضوابط میں سولر انرجی، ونڈ انرجی اور الیکٹرک گاڑیوں کے آلات شامل کیے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہیں ری سائیکل کیا جانا چاہیے۔ تاہم اس بارے میں وضاحت بہت کم ہے۔

قابل تجدید توانائی کی ایک امریکی کمپنی فرسٹ سولر چنئی میں بھی اپنا پلانٹ چلا رہی ہے۔ یہ کمپنی اپنی مصنوعات کی تیاری میں ری سائیکل کیے گئے اجزا کو بھی شامل کرتی ہے۔

بھارت کے لیے کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر سوجوئے گھوش کہتے ہیں کہ برقی کچرے کے بارے میں حکومت کی سوچ درست ہے لیکن تفصیلات میں ابہام ہے۔

ونڈ ٹربائین گرین انرجی پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ کیلی فورنیا کے علاقے پام سپرنگ میں بڑی تعداد میں نصب ونڈ ٹربائنز کا ایک منظر۔

ایک بھارتی تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹڈی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اینڈ پالیسی کی ایک ماہر انجلی تنیجا کہتی ہیں کہ گرین انرجی کے بھارتی پروڈیوسرز کے لیے ری سائیکلنگ یقیناً منافع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔لیکن کسی واضح منصوبے کے بغیر بھارت گرین انرجی کا کچرا پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک بن سکتا ہے۔

خام مال کی ری سائیکلنگ

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بھارت اپنی ضرورت کی 95 فی صد سے زیادہ لیتھیم آئن بیٹریاں درآمد کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ گرین انرجی اور بیٹریوں میں استعمال ہونے والا نکل، کوبالٹ اور دیگر کمیاب معدنیات بھی منگوا رہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ شمسی توانائی کے نئے پینل، بیٹریاں اور ونڈ ٹربائن بنانے کے لیے، 90 فی ری سائیکل شدہ چیزیں استعمال کی جا سکتی ہیں۔

نئی دہلی میں قائم کونسل آن انرجی، انوائرمنٹ اینڈ واٹر کی اکانشا تیاگی کا کہنا ہے کہ اہم معدنیات کو ری سائیکل کرنا بھارت کے لیے ایک بڑا موقع ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ایک ایسے اقتصادی ماڈل کی ضرورت ہے جس کا مقصد مصنوعات کا زیادہ سے زیادہ قابل استعمال اور اس کا کم سے کم کچرا پیدا کرنا ہو۔

ری سائیکلنگ اور روزگار

نئی دہلی کے مضافات میں الیکٹرانک کچرے کی ری سائیکلنگ سے منسلک دیپالی سنہا کھتری وال کا کہنا ہے کہ اگر ری سائیکلنگ پر سنجیدگی سے دھیان دیا جائے تو یہ صنعت روزگار کے بے شمار مواقع پیدا کر سکتی ہے۔

ان کا کہناتھا کہ اس شعبے میں بہت سے ہنرمند اور نیم ہنرمند کارکنوں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ابھی ہماری کمپنی چھوٹی ہے لیکن ہماری کوشش ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں، اس کام کو فروغ ملے اور وہ مزید آگے بڑھے۔

(اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)