رسائی کے لنکس

امریکہ میں ٹی وی پرادویات کے اشتہارات کے لیے ایف ڈی اے کے نئے اصول  


نیسونیکس دوا کا ٹی وی کمرشل ، فائل فوٹو
نیسونیکس دوا کا ٹی وی کمرشل ، فائل فوٹو

ٹی وی پر ادویات کے وہ اشتہارات جو مریضوں کو ہائیکنگ کرتے ، بائیک چلاتے یا ساحل سمندر پر لطف اندوز ہوتے دکھاتے ہیں جلد ہی ایک مختلف شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ نئے اصول ادویات سازوں سے اپنی دوائیوں کے خطرات اور سائڈ ایفیکٹس کی وضاحت کرتے ہوئے مزید واضح اور مزید براہ راست ہونے کا تقاضا کرتے ہیں۔

امریکہ میں خوراک اور ادویات سے متعلق ادارے، یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اشتہارات کی صنعت کے ان طریقوں کو ختم کرنے کے لیے جو ادویات کے خطرات کو گھٹا کر بیان کرتے ہیں یا ناظرین کی توجہ ان سے ہٹاتے ہیں، نئے اصول وضع کیے ہیں۔ اس عمل میں ادارے کو 15 سال کاعرصہ لگا ہے۔

بہت سی کمپنیاں پہلے ہی ان قواعد کو اپنا چکی ہیں، جو 20 نومبر کو قانونی طور پر لاگو ہو جائیں گے ۔ لیکن جب ریگولیٹرز انہیں ڈرافٹ کر رہے تھے تو ایک نیا رجحان ابھر کر سامنے آیا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ادویات کے حوالے سے ہزاروں انفلوئینسرز ادویات کو بہت معمولی نگرانی کے ساتھ آن لائن پروموٹ کر رہے ہیں۔

انڈیانا یونیورسٹی میں مارکیٹنگ کے پروفیسر ایمریٹس ٹونی کاکس کا کہنا ہے کہ ، "کچھ لوگ سوشل میڈیا انفلوئنسرزسے بہت زیادہ منسلک ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی ان کو اتنا زیادہ مستند سمجھ لیتے ہیں کہ بعض صورتوں میں، وہ اس کے مستحق نہیں ہوتے ۔"

اشتہارات کو ٹریک کرنے والے ادارے ، آئی سپوٹ ڈاٹ ٹی وی ( ispot.tv )کے مطابق، پھر بھی ٹی وی بدستور ، ایڈورٹائزنگ انڈسٹری کا بنیادی فارمیٹ بنا ہوا ہے، جس میں گزشتہ سال چار ارب ڈالر خرچ کیے گئے۔

کانگریس میں ایک نیا بل ایف ڈی اے سے تقاضا کرے گا کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایسی پروموشنز کی مزید سختی سے نگرانی کرے۔

جینے کا ہنر سکھانے والے منفرد سوشل میڈیا انفلوئنسرز
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:58 0:00

توجہ کو ہٹائے بغیر آسان زبان کا استعمال

نئے قواعد، جو ٹی وی اور ریڈیو دونوں کا احاطہ کرتے ہیں، ادویات سازوں کو ہدایت دیتے ہیں کہ وہ اشتہارات میں اپنی دوائیوں کی وضاحت کرتے ہوئے کسی طبی اصطلاح کو استعمال کیے بغیر اور دوائیوں کے اثرات سے توجہ ہٹانے والے بصری اور آڈیو ایفیکٹس کے بغیر ، سادہ اور صارف دوست زبان استعمال کریں۔

2007 کے ایک قانون کے تحت ایف ڈی اے کو اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی کہ ادویات کے خطرات کے بارے میں معلومات " صاف، واضح اور غیر جانبدارانہ انداز میں" ظاہر ہوں۔

ایف ڈی اے ہمیشہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اشتہارات میں فوائد اور خطرات دونوں کی ایک متوازن تصویر پیش کی جانی چاہئیے۔ اسی تقاضے کے حوالے سے "سیٹرڈے نائٹ لائیو" جیسے شوز میں سائڈ ایفیکٹس کی طویل اور تیز رفتار فہرستوں پر مبنی پیروڈیز پیش کی گئیں ۔

لیکن 2000 کی دہائی کے اوائل میں، محققین نے یہ دکھانا شروع کیا کہ کمپنیاں کس طرح سیفٹی کے بارے میں معلومات کی اہمیت کو گھٹانے کے لیے تصاوہر اور آڈہو کو استعمال کر سکتی ہیں ۔

سوشل میڈیا پر مریض انفلوئینسرز

نئے قوانین اس وقت سامنے آئے ہیں جب ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر ایف ڈی اے اور فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے لیے ابتدائی منصوبے پیش کرنا شروع کر رہے ہیں۔

ویکسین کے مخالف ایک سر گرم کارکن ، رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر جو منتخب صدر کو مشورہ دے چکے ہیں ، ٹی وی پر ادویات کے اشتہارات کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ اور صنعت کے دوسرے ناقدین کہتے ہیں کہ امریکہ اور نیوزی لینڈ واحد ممالک ہیں جہاں ٹی وی پر نسخے کی دوائیوں کی تشہیر کی جا سکتی ہے۔

اس کے باوجود، بہت سی کمپنیاں ٹی وی سے ہٹ کر سوشل میڈیا میں پھیل رہی ہیں۔ وہ اکثر مریضوں پر اثر انداز ہونے والی مشہور شخصیات کے ساتھ شراکت کرتی ہیں جو اپنی بیماریوں سے نمٹنے ، نئے علاج یا ہیلتھ سسٹم کے بارے میں معلومات کو پوسٹ کرتے ہیں۔

کولوراڈو بولڈر یونیورسٹی میں ایڈورٹائزنگ اور میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے والی ایرن ولیس کہتی ہیں ، "وہ لوگوں کو اپنی بیماری کے ساتھ اچھی زندگی گزارنا سکھا رہے ہیں، لیکن پھر ان میں سے کچھ کو اشتہار دینے اور مریضوں کو ادویات کے استعمال پر آمادہ کرنے کے لیے ادائیگی بھی کی جاتی ہے۔"

ایڈورٹائزنگ ایگزیکٹوز کا کہنا ہے کہ کمپنیاں اس فارمیٹ کو پسند کرتی ہیں کیونکہ یہ ٹی وی سے سستا ہے اور صارفین عمومی طور پر محسوس کرتے ہیں کہ انفلوئینسرز کمپنیوں کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتماد ہیں۔

سچائی پر مبنی،خطرے اور فائدے کی متوازن معلومات کے لیے ایف ڈی اے کے تقاضے کا اطلاق ادویات سازوں پر ہوتا ہے لیکن ان انفلوئینسر ز اور ان ٹیلی ہیلتھ کمپنیوں دونوں پر نہیں ہوتا جن کا ممکنہ طور پر ان دوا سازوں سے کوئی براہ راست مالی تعلق نہیں ہوتا جن کو وہ فروغ دے رہے ہوتے ہیں۔

اس مسئلہ نے کانگریس کے ارکان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔

الی نوائے کے سینس ڈک ڈربن اور انڈیانا کے مائیک براؤن نے فروری میں ایف ڈی اے کو ایک خط میں لکھا "سوشل میڈیا کی طاقت اور گمراہ کن پروموشنز کے سیلاب کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے نوجوان صحت کی دیکھ بھال کرنے والے ماہرین کی بجائے انفلوئینسرز سے طبی مشورے لے رہے ہیں۔"

امریکی سینیٹرز کی طرف سے حال ہی میں متعارف کرایا گیا بل انفلوئینسرز اور ٹیلی ہیلتھ کمپنیوں کو واضح طور پر ایف ڈی اے کے دائرہ اختیار میں لائے گا، جو ان سے تقاضا کرے گا کہ وہ ادویات کے استعمال کے خطرے اور سائڈ ایفیکٹس کے بارے میں انکشاف کریں ۔ یہ بل ادویات سازوں سے یہ تقاضابھی کرے گا کہ وہ انفلوئینسرز کے لیے ادائیگیوں کو بھی عوامی طور پر ظاہر کریں۔

اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG