نومبر کے شروع میں، بیجنگ میں کئی ملکوں کے سائنسدانوں کی کانفرنس ہوئی۔ یہ سائنس داں جن ملکوں کی نمائندگی کرتے ہیں انہیں مختصراً BRICS کہتے ہیں جو برازیل، روس، انڈیا، چائنا اور ساؤتھ افریقہ نیز امریکہ اور انڈونیشیا پر مشتمل ہے۔ ان محققوں نے آب و ہوا کی تبدیلی اور غذا ئی اشیا کی فراہمی کی ضمانت پر بات چیت کی اور بہت سے مسائل اور سفارشات پر اتفاق کیا جنہیں ڈربن کانفرنس میں پیش کیا جانا تھا۔
ان میں سے ایک محقق جیرالڈ نیلسن کہتے ہیں کہ انھوں نے آب و ہوا کی تبدیلی کے معاہدے کے مذاکرات کے لیے ایک ورک پروگرام تیار کیا جس میں زراعت کے رول پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔’’اس ورک پروگرام کا فائدہ یہ ہے کہ یہ زراعت پر آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات پر ہونے والی ریسرچ کے نتائج کو ریکارڈ میں شامل کر دیتا ہے جسے تمام مندوبین دیکھ سکتے ہیں ۔‘‘
نیلسن واشنگٹن میں قائم انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا IFPRI میں سینیئر فیلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ ریسرچرز کو آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے ۔ بات یہ ہے کہ انہیں ابھی اور بہت کچھ جاننے کی ضرورت ہے ۔
’’ہماری ریسرچ کے نتائج اور ہماری زمین کی سطح پر آج کل جو کچھ ہو رہا ہے اسے سمجھنے میں دشواری یہ ہے کہ ہمیں کافی معلومات اور اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔اصل تبدیلیوں کے بارے میں ہماری معلومات بہت محدود ہیں۔ ہم مکمل اندھیرے میں تو نہیں ہیں، لیکن ان تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس بہت کم روشنی ہے ۔ تبدیلیاں کہاں آ رہی ہیں اور کیسے آ رہی ہیں، یہ سمجھنے کے لیے ہمیں اعداد و شمار جمع کرنے کا کام کہیں بہتر انداز میں کرنا ضروری ہے۔‘‘
جو تبدیلیاں آ رہی ہیں ان میں کچھ، کم ا ز کم آج کل، پہلی نظر میں تو فائدے مند معلوم دیتی ہیں۔ نیلسن کہتے ہیں’’مثلاً ، ریاست آیووا میں، کاشتکاروں کے لیے فصلیں اگانے کا موسم طویل ہو گیا ہے ۔ اب وہ بوائی کا کام جلدی کر لیتے ہیں۔ بہار کے موسم میں بارشیں زیادہ ہونے لگی ہیں ۔ اگر آپ چین کی طرف نظر ڈالیں، تو پتہ چلے گا کہ Heilongjiang کے صوبے میں جہاں پہلے چاول بالکل پیدا نہیں ہوتا تھا، اب چین کی چاول کی کُل پیداوار کا پندرہ فیصد حصہ پیدا ہوتا ہے ۔ روس کے شمالی حصے میں، جہاں 20 یا 30 سال پہلے کوئی فصل اگانا ممکن نہیں تھا، اب اناج پیدا ہوتا ہے ‘‘
لیکن اگر دنیا کا درجۂ حرارت مسلسل اسی طرح بڑھتا رہا تو کیا ہوگا؟ کیا بظاہر ہونے والے یہ فائدے جاری رہیں گے؟ نیلسن کہتے ہیں’’مختصر عرصے کے لیے تو اس کا مثبت نتیجہ نکلے گا۔ یعنی شمال میں چاول کی پیداوار گرمی زیادہ ہونے کی وجہ سے ممکن ہو جائے گی۔ لیکن جیسے جیسے آپ زمین کے وسط میں جاتے ہیں، تو پھر کچھ کہنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ انتہائی شمالی علاقوں میں آپ تبدیلی کے اثرات نسبتاً جلد دیکھ سکتےہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ بات آب و ہوا میں اب تک جو تبدیلی ہوئی ہے، اس کے بارے میں کہی جا رہی ہے۔‘‘
نیلسن کہتے ہیں کہ پیشگوئیوں کے مطابق درجۂ حرارت میں کافی زیادہ اضافہ ہوگا ۔ گذشتہ 100 برسوں میں درجۂ حرارت میں ایک ڈگری سیلسیئس کا اضافہ ہوا ہے ۔ لیکن پیشگوئی یہ ہے کہ 2050 تک دو ڈگری سیلسیئس کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس قسم کے اضافے سے مکئی کی پیداوار پر زبردست اثر پڑے گا ۔
’’مکئی کے پودے کے لیے 30 یا 31 ڈگری سیلسیئس کا درجۂ حرارت ٹھیک رہتا ہے ۔ لیکن اگر درجۂ حرارت 32 یا 33 ڈگری تک پہنچ جائے، تو حالیہ ریسرچ کے مطابق پیدا وار میں خاصی کمی آ جائے گی۔‘‘
بیجنگ کی میٹنگ میں نیلسن اور دوسرے سائنسدانوں نے آب و ہوا کی تبدیلی کے سلسلے میں 12 ترجیحات کی فہرست پیش کی ۔ ان میں سے ایک میں انتباہ کیا گیا ہے کہ درجۂ حرارت کی تبدیلی سے ایسے کیڑوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے جو فصلوں پر حملے کرتے ہیں۔ وہ کہتےہیں’’درجۂ حرارت میں اضافے کے ساتھ ، کیڑوں میں، خاص طور سے افزائش کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے ۔ لہٰذا ، ایک سیزن میں کسی کیڑے کی افزائش تین بار کے بجائے چار یا پانچ بار ہو سکتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پودوں کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔‘‘
درجۂ حرارت میں اضافے کے ساتھ، بہت سے علاقوں میں پالا پڑنا بند ہو سکتا ہے جس سے کیڑوں کی افزائش کم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ جہاں تک گھاس پھوس کا تعلق ہے، تو ایسے ماحول میں جہاں کاربن ڈائی آکسائڈ کی کثرت ہے، گھاس پھوس خوب پھلتی پھولتی ہے ۔
ترجیحات کے دوسرے شعبوں میں مٹی کے حیاتیاتی نظام، آبپاشی ، زمین کا استعمال، بایو ٹکنالوجی، غذائی اشیا کو اسٹور کرنے کے دوران نقصانات، اور ریسرچ کرنے والوں، کاشتکاروں اور دوسرے لوگوں کی تربیت شامل ہے تا کہ وہ آب و ہوا کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل سے بہتر طور پر نمٹ سکیں۔