موسمیات کے ماہرین نے بتایا ہے کہ پچھلے تین عشروں میں مشرق وسطیٰ کے ملکوں کا درجہ حرارت پوری دنیا کے اوسطً درجہ حرارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھا ہے۔ ماہرین پیش گوئی کر رہے ہیں کہ دنیا کایہ حصہ اور بھی گرم ہوتا جائے گا۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک موسمیاتی تبدیلی کی لپیٹ میں اور زیادہ آئیں گے، جس کے آثار ابھی سے نظر آرہے ہیں۔
گزشتہ تین چار ہفتوں سے پاکستان میں مون سون بارشیں معممول سے کہیں زیادہ ہو رہی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان خاص طور پر ان کی زد میں ہیں۔ کراچی جیسا شہر بارش کے پانیوں میں کئی بار ڈوبا، بلوچستان کے برستانی نالوں کی طغیانی نے کئی انسانی جانوں کو نگل لیا۔ موسم کی تباہ کاریاں ، دراصل صرف پاکستان یا بھارت تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔ کہیں خشک سالی کہیں طغیانی اور کہیں شدید گرمی کی لہر۔ یورپ میں گرمی کی شدت کی خبریں تو آپ نے سن ہی لی ہوں گی۔
اب عراق کو لے لیجیے وہاں ریت کے تیز طوفانوں نے اس سال متعدد بار شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس سے کاروبار بند ہو گیا اورہزاروں افراد گرمی کی تاب نہ لاکر ہسپتال پہنچ گئے۔ مصر کے نیل ڈیلٹا میں بڑھتا ہوا سیم و تھور کھیتوں کو بنجر کر رہا ہے۔ افغانستان میں خشک سالی کی وجہ سے دیہی نوجوان روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کررہے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں، خطے کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ (122 فارن ہائیٹ) تک پہنچ گیا ہے۔
اس سال اقوام متحدہ کی سالانہ ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس، جسے COP27 کے نام سے جانا جاتا ہے، نومبر میں مصر میں منعقد ہو رہی ہے، جس سے خطے کے موسمی حالات پر روشنی ڈالی جائے گی۔ پورے مشرق وسطیٰ کی حکومتیں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے بارے میں بیدارہو چکی ہیں، خاص طورپراس سے ان کی معیشتوں کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں وہ خاصے فکر مند ہیں۔
لاما ایل ہاتو ماحولیاتی تبدیلی کے ایک ماہر ہیں جوعالمی بینک کے ساتھ کام کر چکی ہیں اورمشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے موسمی حالات سے باخبر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ہم لفظی طورپرنہیں بلکہ اپنے سامنے یہ اثرات دیکھ رہے ہیں۔ یہ اثرات کوئی ایسی چیز نہیں ہیں جو ہمیں نو یا 10 سال پیچھے لے جائیں گے۔" زیادہ سے زیادہ ممالک اس کی ضرورت اور اس کا مداوا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
مصر، مراکش اور خطے کے دیگر ممالک صاف توانائی کے لیے اقدامات کو تیز کر رہے ہیں۔ لیکن COP-27 کی اولین ترجیح یہ ہے کہ وہ ان خطرات سے نمٹنے میں مدد کے لیے ان ممالک کو زیادہ بین الاقوامی فنڈز فراہم کریں جن کا وہ پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سامنا کر رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں خطرے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کروڑوں افراد یک دم متاثر ہوتے ہیں کیونکہ درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے: اس خطے میں پہلے سے ہی زیادہ درجہ حرارت ہے اورعام حالات میں بھی پانی کے وسائل محدود ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اس سال کے شروع میں ایک رپورٹ میں بتایا کہ مشرق وسطیٰ کی حکومتوں کے پاس بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کی محدود صلاحیت ہے۔ معیشتیں اور بنیادی ڈھانچے کمزور ہیں، اورضابطوں پر اکثرعمل درآمد نہیں ہوتا۔ غربت بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے روزگار کو آب و ہوا کے تحفظ کے مقابلے میں ترجیح دی جاتی ہے۔ مصرکی مطلق العنان حکومتیں سول سوسائٹی پرسخت پابندیاں لگاتی ہیں،جوماحولیاتی اورآب وہوا کے مسائل پرعوام کو شامل کرنے میں ایک اہم ذریعہ کو روکتی ہیں۔
اس کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک مشرق وسطیٰ سمیت غریب ملکوں پر دبار بڑھا رہے ہیں کہ وہ گیسوں کے اخراج کو کم کریں، ہرچند کہ وہ خود اپنے وعدوں سےمنحرف ہو چکے ہیں۔
خطرات سنگین ہیں
جیسے جیسے خطہ گرم اورخشک ہوتا جا رہا ہے، اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ 2025 تک مشرق وسطی کی فصلوں کی پیداوار میں 30 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق، پانی کی کمی کی وجہ سے 2050 تک خطے کی جی ڈی پی میں چھ سے چودہ فی صد تک کمی متوقع ہے۔
عالمی بینک کے مطابق، مصر میں گزشتہ 30 سالوں میں بارش میں 22 فیصد کمی آئی ہے۔
خشک سالی کے مزید بار بار اور شدید ہونے کی توقع ہے۔ مشرقی بحیرہ روم نے حال ہی میں 900 سالوں میں اپنی بدترین خشک سالی دیکھی، ناسا کے مطابق، شام اور لبنان جیسے ممالک کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے جہاں زراعت کا انحصار بارش پر ہوتا ہے۔ اردن اور خلیج فارس کے ممالک میں پانی کی مانگ زیر زمین پانی کے ذخائر پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ عراق میں خشکی میں اضافے کی وجہ سے ریت کے طوفان میں اضافہ ہوا ہے۔
ایک ہی وقت میں، گرم پانی اورہوا انتہائی اوراکثر تباہ کن موسمی واقعات کو زیادہ کثرت سے جنم دیتے ہیں، جیسے سیلابی ریلے جو باربارسوڈان اور افغانستان کو متاثر کرتے ہیں۔
آب و ہوا کے نقصان کے ممکنہ طور پر خطرناک سماجی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔
چیتھم ہاؤس کے ایک ایسوسی ایٹ فیلو کریم ایلگینڈی نے کہا کہ بہت سے لوگ جو زراعت یا سیاحت میں اپنی روزی روٹی کما نہیں پاتے وہ نوکریوں کی تلاش میں شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ اس سے ممکنہ طور پر بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے، سماجی خدمات ناپید ہو رہی ہیں اور سماجی تناؤ بڑھ رہا ہے جن سے ملکی اور علاقائی سلامتی پر اثر پڑ سکتا ہے۔
انفراسٹرکچر اور معیشتوں کو نقصان سے بچانے کے لیے سماجی ڈھانچے کو بدلنا بہت مہنگا پڑے گا۔ عالمی مالیاتی بینک کا تخمینہ ہے کہ تھوڑی بہت تبدیلی بھی اگلے 10 سالوں کے لیے ہرسال خطے کی جی ڈی پی کے 3.3فی صد کے برابرہو گی ۔ اخراجات کو پانی کے استعمال کے زیادہ موثر نظام اور نئے زرعی طریقوں سے لے کر ساحلی تحفظات کی تعمیر، سماجی تحفظ کے جال کو بہتر بنانے اور آگاہی مہم کو بہتر بنانے تک ہر پہلو کی طرف جانے کی ضرورت ہے۔
لہٰذا اس سال کے COP میں مشرق وسطیٰ اور دیگر ترقی پذیر اقوام کے لیے اولین ترجیحات میں سے ایک یہ ہے کہ امریکہ، یورپ اور دیگر دولت مند ممالک پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ انہیں آب و ہوا کی مد میں اربوں ڈالر کی مالی امداد فراہم کرنے کے طویل عرصے کے وعدوں پرعمل کریں۔
اب تک، ترقی یافتہ قومیں ان وعدوں میں ناکام رہی ہیں۔ نیز، ان کی فراہم کردہ زیادہ تررقم غریب ممالک کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ادا کرنے میں مدد کرنے کے لیے دی گئی ہے -
اس سال کے COP کے لیے، اقوام متحدہ کے حکام، مصری میزبانوں اور موسمیاتی کارکنوں کی طرف سے دوہرائی جانے والی سرفہرست تھیم وعدوں پر عمل ہے۔ اس اجتماع کا مقصد ممالک کو یہ بتانا ہے کہ وہ کس طرح اخراج میں کمی کے وعدے کے اہداف تک پہنچیں گے - اورانہیں پہلے سے بھی زیادہ کمی لانا ہو گی۔ کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اہداف اب بھی گرمی کی تباہ کن سطح کی طرف لے جائیں گے۔
مسلسل افراط زر اور کساد بازاری کا امکان ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی مالی امداد کے وعدے کرنے سے باز رکھ سکتا ہے۔
ایل ہاتو نے کہا کہ "بین الاقوامی حکام اکثراخراج میں کمی پر زور دیتے ہیں مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ترقی پذیردنیا کے دیگرممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے سلسلے میں خاطر خواہ تعاون نہیں کیا ہے، جبکہ وہ اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، "ہمیں حالات کے مطابق ڈھالنے کے لیے سرمایہ کاری کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔
تاہم عالمی واقعات COP26 کی پیش رفت کو متاثر کررہےہیں۔ اخراج میں کمی ،عالمی توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور یوکرین میں جنگ نے کچھ یورپی ممالک کو بجلی پیدا کرنے کے لیے کوئلے کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کیا ہے- حالانکہ وہ اصرارکرتے ہیں کہ یہ صرف عارضی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں کئی ایسے ممالک بھی ہیں جن کی معیشتیں اپنے معدنی ایندھن کے وسائل پر انحصار کرتی ہیں۔ان میں سعودی عرب اورخلیج فارس کے ممالک بلکہ مصر بھی واضح طور پر شامل ہے۔
(خبر کا کچھ مواد اے پی سے لیا گیا)