آب و ہوا کی تبدیلی پر گلاسگو میں ہونے والی عالمی کانفرنس کے اختتامی مرحلے میں کوئلہ اور معدنی تیل و گیس پیدا کرنے والے ملکوں نے اپنے لیے رعائیتں حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بظاہر ان کی کوششیں کامیاب ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں کیونکہ اختتامی اعلان کے لیے پہلے جو سفارشات مرتب کی گئی تھیں، اب انہیں نرم کیا جا رہا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کانفرنس کی سفارشات کے تازہ ترین مسودے میں اقوام سے کہا گیا ہے کہ کوئلے کا استعمال ترک کرنے کی جانب تیزی سے پیش رفت کریں اور معدنی ایندھن کے لیے زرتلافی میں کمی کریں۔ جب کہ اس سے پہلے بدھ کے مسودے میں زیادہ سختی سے کوئلے اور تیل کا استعمال ختم کرنے پر زور دیا گیا تھا۔
کرہ ارض کا درجہ حرارت مسلسل بڑھنے میں سب سے زیادہ حصہ کوئلے اور معدنی ایندھن کا ہے۔ ان کے جلنے سے خارج ہونے والی کاربن گیسیں گلوبل وارمنگ کا سبب بن رہی ہیں۔ مگر یہ دونوں چیزیں ان ملکوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں، جو ان سے مالا مال ہیں اور وہ یک جنبش قلم اپنی اس وسیع آمدنی سے محروم ہونا نہیں چاہتے۔
دوسری جانب وہ ملک ہیں جو اپنی معیشت کا پہیہ حرکت میں رکھنے کے لیے معدنی ایندھن پر انحصار کرتے ہیں۔ انہیں معیشت اور اپنے معمولات کو متبادل توانائی پر منتقل کرنے کے لیے کثیر سرمایہ اور زیادہ وقت درکا ر ہے۔ یہ دونوں گروپ چاہتے ہیں کہ انہیں متبادل بندوبست کے لیے زیادہ مہلت مل جائے۔
لیکن آب و ہوا کی تبدیلی کے سرگرم کارکن اور سائنس دان کہتے ہیں کہ اب گلوبل وارمنگ میں اضافے کی رفتار ہمیں مزید مہلت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر کاربن گیسوں کا اخراج روکنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو ہمیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق سفارشات کے مسودے میں تبدیلی کے لیے دباؤ ڈالنے والوں میں سعودی عرب، آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں۔ سعودی عرب تیل اور باقی دونوں کوئلہ پیدا کرنے والے بڑے ملک ہیں اور کاربن گیسوں کے اخراج کے لحاظ سے بھارت دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔
گلاسکو کانفرنس میں شامل امریکی مندوب جان کیری نے کہا ہے کہ نئی مرتب کی جانے والی سفارشات کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جہاں تک معدنی ایندھن کو دی جانے والی سبسڈی کا تعلق ہے تو اسے ختم ہونا چاہے۔ ہم دنیا میں سب سے زیادہ تیل اور گیس پیدا کرنے والا ملک ہیں اور ہم ان شعبوں کو کچھ سبسیڈیز دے رہے ہیں۔
کانفرنس میں شریک ایک تیسرا گروپ آب و ہوا کی تبدیلی پر پیرس معاہدے کے اس پہلو پر عمل درآمد کے لیے زور دے رہا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ترقی یافتہ ملک، غریب اور ترقی پذیر ملکوں کو گلوبل وارمنگ کے اثرات سے نمٹنے اور اپنے انفراسٹرکچر کو شفاف اور قابل تجدید توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 2020 تک سالانہ 100 ارب ڈالر کی امداد دیں گے۔ چونکہ گلوبل وارمنگ کے ذمہ دار ترقی یافتہ ملک ہیں جب کہ ہو یہ رہا ہے کہ اُن کی پیدا کردہ کاربن گیسوں کا خمیازہ غریب ملک بھگت رہے ہیں۔ غریب ملکوں کو شکایت ہے کہ پیرس معاہدے میں کیے گئے اس وعدے پر قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔
آب و ہوا کی تبدیلی پر فکرمند ماہرین یہ اصرار کر رہے ہیں کہ 2015 کے پیرس معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے جس کے تحت سن 2010 کے مقابلے میں 2030 تک کاربن گیسوں کے اخراج میں 45 فی صد تک کمی اور 2050 تک اسے مکمل طور پر ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا، مگر ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیا۔
اگر پیرس معاہدے پر عمل درآمد کیا جاتا تو آج ہم اس کے کچھ مثبت اثرات کا مشاہدہ کر رہے ہوتے مگر ہم الٹا گلوبل وارمنگ کے شدید منفی نتائج کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمارے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، سمندری طوفانوں، تباہ کن بارشوں اور سیلابوں کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ کئی علاقے شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں۔ درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں اور موسموں کے دورانیئے اور انداز میں خلل پڑ رہا ہے۔ ماہرین انتباہ کر رہے ہیں کہ اگر کاربن گیسوں کے اخراج پر جلد قابو نہ پایا گیا تو بہت کچھ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
SEE ALSO: آب و ہوا کی تبدیلی: گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، مسائل بڑھ رہے ہیںگلاسکو میں دو ہفتوں سے جاری آب و ہوا کی تبدیلی پر عالمی کانفرنس میں تقریباً دو سو ملکوں کے مندوبین اور ماہرین اپنی سفارشات مرتب کر رہے ہیں، جب کہ کانفرنس ہال سے باہر گوبل وارمنگ کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکن مظاہرے کر رہے ہیں۔
ماحولیات سے متعلق آسڑیلیا کے ایک ماہر رچی مرزین کا کہنا ہے کہ جو اضافی رعائیتں دی جا رہی ہیں وہ کوئلے سے بھری مال بردار ٹرین چلانے کے لیے کافی ہے۔
سویڈن سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان سرگرم کارکن گریٹا تھن برگ نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارا ہدف حقیقی اقدامات کرنے کی بجائے درمیان کے راستے ڈھونڈنا بن جائے تو پھر زیادہ امکان یہ ہے کہ اس عالمی کانفرنس سے کوئی بڑا نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے اس ہفتے کہا تھا کہ درجہ حرارت کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کی سطح پر لانے کا ہدف اگرچہ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اس وقت وہ لائف سپورٹ پر ہے۔