گلاسگو میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والی آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق سربراہی کانفرنس نے کاربن گیسوں کا اخراج کم کرنے کی طرف "کچھ سنجیدہ قدم" اٹھائے ہیں، لیکن اعلیٰ عہدے داروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت کو بین الاقوامی طور پر منظور شدہ اہداف تک لانے کے لیے ابھی بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے۔
دو ہفتوں پر محیط یہ مذاکرات تیزی سے اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
آب و ہوا کی تبدیلی پر عالمی کانفرنس کے صدر، الوک شرما نے اجلاس میں شریک اعلیٰ سطحی حکومتی وزرا سے کہا کہ وہ اپنے دارالحکومتوں میں عہدےداروں سے رابطے کر کے یہ معلوم کریں آیا وہ اس سلسلے میں زیادہ ٹھوس وعدے کر سکتے ہیں، کیونکہ "ہمارے پاس کانفرنس کے اختتام میں صرف چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔"
اس ماہ ہونے والے اس سربراہی اجلاس میں اب تک بہت محددو نوعیت کی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے جس کے متعلق تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پیش قدمی کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر قابو پانے کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 2030 تک دنیا ہر سال تقریباً ساڑھے 51 بلین میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرے گی، جو کہ تازہ ترین وعدوں سے پہلے کے مقابلے میں یہ مقدار صرف ڈیڑھ بلین ٹن کم ہے۔
2015 کے پیرس میں ہونے والے آب و ہوا کے معاہدے میں مقرر کردہ حد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا اب سے 2030 تک زیادہ سے زیادہ صرف ساڑھے 12 بلین میٹرک ٹن گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیات کے پروگرام کے ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت اگرچہ کچھ سنجیدہ ہے لیکن وہ ایسی نہیں جس کی ہمیں فی الواقع ضرورت ہے۔
کانفرنس کے صدر شرما کا کہنا تھا کہ اگرچہ کچھ پیش رفت ہوئی ہے لیکن ہمارے سامنے ایک بڑا پہاڑ ہے جسے ہمیں اگلے چند دنوں میں عبور کرنا ہے۔
اینڈرسن نے اس سلسلے میں بتایا کہ دو ہفتوں پر محیط کانفرنس میں شامل اقوام متحدہ کے تین اہم نکات میں سے ایک پر بھی ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ وہ ہے 2030 تک کاربن گیسوں کے اخراج میں نصف کی کمی اور گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے سلسلے میں بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر میں مدد کے لیے غریب ملکوں کو سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنا۔
کاربن گیسوں کے اخراج پر نظر رکھنے والے کلائمیٹ ایکشن ٹریکر کے ایک تجزے میں کہا گیا ہے کہ پیش کردہ اہداف کی بنیاد پر دنیا اب صنعتی دور سے پہلے کے دو اعشاریہ 4 ڈگری گریڈ زیادہ کے راستے پر چل رہی ہے۔ جب کہ 2015 کے پیرس معاہدے میں یہ حد ڈیڑھ ڈگری رکھی گئی تھی۔
آب و ہوا پر عالمی کانفرنس میں شریک حکومتوں کے اعلیٰ نمائندوں کے پاس کسی بہتر فیصلے تک پہنچنے کے لیے جمعے تک کا وقت ہے لیکن تجریہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے دو اہم فریق ہیں۔ ایک جانب وہ قومیں ہیں جنہوں نے کوئلے، تیل اور گیس کے بے دریغ استعمال سے صنعتی ترقی حاصل کی اور ان کا شمار امیر اقوام میں ہونے لگا۔ جب کہ دوسری جانب وہ ملک ہیں جنہوں نے ابھی تک ترقی نہیں کی اور وہ غربت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جب کہ اب انہیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ معدنی ایندھن کے استعمال سے باز رہیں، کیونکہ اس سے خارج ہونے والی گیسیں کرہ ارض کے لیے بہت خطرناک ہیں۔
اس حوالے سے ایک اہم پہلو مالیات کا ہے۔ سن 2009 میں ترقی یافتہ ملکوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ غریب ملکوں کو گلوبل وارمنگ کے خطرات سے نمٹنے میں مدد کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کریں گے۔ لیکن امیر ممالک ابھی تک اس ہدف تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ اس سال امیر اقوام نے 80 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے جو اصل ہدف سے کم ہے۔
تاہم، اینڈرسن اور انوک شرما اب بھی پرامید ہیں۔ اینڈرسن کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کانفرنس ختم ہونے میں ابھی کچھ دن باقی ہیں۔ ہم اقوام متحدہ کی جانب سے مسلسل یہ کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا کے قدم آگ کی طرف بڑھنے سے روک سکیں۔