غلام محمد سدپارہ کا دل بجھا بجھا سا ہے۔ لیکن ان کی نظریں آج بھی اپنے موبائل فون کی اسکرین پر ایک ایسے میسج کی منتظر ہیں کہ کب ان کے بچپن کے دوست محمد علی سدپارہ کا پیغام آئے اور وہ روایتی جملہ دیکھ سکیں کہ 'کاکا کہاں ہیں'؟
غلام محمد لبوں پر مسکراہٹ سجائے یہ جملہ تصور میں لاتے ہیں لیکن کئی روز گزر جانے کے باوجود کوئی پیغام موصول نہیں ہو رہا۔
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی، کے ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنے کی کوشش میں پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی سے تعلق رکھنے والے ہوان پابلو مور پانچ فروری سے لاپتا ہیں۔
کوہ پیمائی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ تینوں لاپتا کوہ پیماؤں کے زندہ رہنے کی کوئی امید باقی نہیں ہے۔ تاہم محمد علی سدپارہ کے آبائی گاؤں، سدپارہ میں ہر شخص کی زباں سے ایک ہی صدا آ رہی ہے۔ 'علی بھائی زندہ ہیں۔'
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے غلام محمد نے بتایا کہ یوں تو وہ محمد علی سدپارہ کے بچپن کے دوست ہیں۔ پہلے گاؤں میں ساتھ پلے بڑے بعد میں سکردو میں زندگی کے کافی ایام ایک ساتھ گزارے۔ تاہم گزشتہ سات سالوں سے وہ ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب تھے۔ دونوں کا زیادہ تر وقت پہاڑوں پر ہی گزرتا تھا کیوں کہ محمد علی سدپارہ کو پہاڑوں کے علاوہ کوئی اور جگہ راس نہیں آتی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 16 جنوری کو جب نیپالی کوہ پیماؤں نے کے ٹو سر کیا تو علی سدپارہ کے اضطراب میں مزید اضافہ ہوا۔ اگرچہ وہ گرمیوں میں کے ٹو سر کر چکے تھے، لیکن اُنہوں نے بھی بغیر آکسیجن کے موسمِ سرما میں اسے سر کرنے کا ارادہ کیا تاکہ پاکستانی کوہ پیما بھی تاریخ میں اپنا نام لکھوا سکیں۔
غلام محمد کے مطابق محمد علی سدپارہ بلا کے فٹ اور مضبوط انسان تھے۔
11 جنوری کو کیمپ 3 سے وٹس اپ میسج کے ذریعے محمد علی سد پارہ نے غلام حسین کو پیغام بھیجا کہ "سلام بھائی۔ ہم نے کیمپ 3 پر اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے۔ کیمپ 4 پر جانے کے لیے موسم کے سازگار ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک ہفتہ بہت طویل محسوس ہو رہا ہے۔"
سدپارہ، گلگت بلتستان کے ضلع سکردو میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس کی آبادی تقریباً ڈھائی ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اور اسی مناسبت سے ان کا نام محمد علی سدپارہ پڑ گیا۔
غلام محمد کے مطابق محمد علی سدپارہ اسکول میں فٹبال کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ ان کا شمار گاؤں کے سب سے مضبوط جوانوں میں ہوتا تھا۔ اس مضبوطی کے بارے میں گاؤں میں مشہور تھا کہ محمد علی نے بچپن میں چھ سال تک اپنی ماں کا دودھ پیا تھا۔
لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے گزشتہ 10 دنوں سے سرچ اور ریسکیو آپریشن بھی جاری ہے۔ ریسکیو مشن کے دوران آرمی ہیلی کاپٹرز نے 7000 میٹر سے زائد کی بلندی تک پرواز کی ہے۔ تاہم سرتوڑ کوششوں کے باوجود ریسکیو ٹیموں کو ابھی تک کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔
غلام محمد کا کہنا ہے کہ پورا علاقہ ایک عجیب مخمصے اور ٹراما کا شکار ہے۔ "وہ ہماری آنکھوں سے بہت دور ہے۔ لیکن ابھی تک ہم انہیں مردہ بھی نہیں قرار دے سکتے۔"
محمد علی سدپارہ 1976 میں پیداہ ہوئے۔ بڑے بیٹے ساجد سدپارہ کے ٹو سر کرنے کی مہم میں ان کے ساتھ تھے جب کہ گھر پر مظاہر سدپارہ، جواہر سدپارہ اور بیٹی شازیہ سدپارہ نے ان کی واپسی پر ایک شان دار پروگرام کا اہتمام کیا ہوا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کے بیٹے مظاہر سدپارہ نے بتایا کہ ان کی والدہ ہمیشہ ان کے کوہ پیمائی کے شوق کے خلاف تھیں۔ وہ انہیں اکثر کوئی دوسرا کام کرنے کا مشورہ دیتیں۔ کیون کہ انہیں اس پُر خطر کھیل کا اندازہ تھا۔
لیکن محمد علی سدپارہ یہ کہہ کر بات کو ٹال دیتے تھے۔ کیوں کہ انہیں پہاڑوں سے عشق تھا۔ وہ کہتے تھے کہ کہ وہ پہاڑوں میں پیدا ہوئے ہیں اور جب پہاڑ پر جاتے ہیں تو ان کو نہ صرف دلی خوشی ہوتی ہے بلکہ روحانی تسکین بھی حاصل ہوتی ہے۔
دنیا میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند کل 14 چوٹیاں ہیں۔ جن میں سے پانچ پاکستان جبکہ باقی ماندہ نیپال میں ہیں۔ محمد علی سدپارہ ان میں سے آٹھ سر کر چکے ہیں جب کہ باقی ماندہ چھ کو وہ جلد از جلد سر کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 2016 میں دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی، نانگا پربت کو پہلی مرتبہ موسمِ سرما میں سر کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
غلام محمد کے مطابق نانگا پربت سر کرنے کے بعد محمد علی سدپارہ اور اسپین سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما ایلکس سے ان کی ملاقات ایک دعوت پر ہوئی۔ جہاں انہوں نے ایلکس سے مخاطب ہو کر سد پارہ کی جانب اشارہ کیا کہ اب تو یہ نیشنل ہیرو بن گئے ہیں۔ جس پر ایلکس نے کہا کہ وہ صرف نیشنل ہیرو نہیں بلکہ 'انٹرنیشنل ہیرو' ہیں۔
غلام محمد کا کہنا ہے کہ محمد علی سدپارہ بہت پیارے انسان تھے۔ وہ ہر وقت اپنی کمیونٹی کے لیے کچھ کرنے کی جستجو میں رہتے تھے۔ وہ یہی کہتے تھے کہ پاکستان بہت خوبصورت ہے۔ اور اسے دنیا کو دکھانا چاہیے۔
سدپارہ گاؤں کا ہر تیسرا فرد کوہ پیما ہے۔ یہاں کے نوجوان نہ صرف اپنی کمیونٹی بلکہ پاکستان آرمی کے لیے بھی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ محمد علی سدپارہ بھی اپنی جواں مردی کی وجہ سے سیاچن میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔
محمد علی سدپارہ نہ صرف خود بلکہ ان کے آباؤ اجداد بھی پورٹر اور گائیڈ کا کام کرتے تھے۔ شروع شروع میں انہوں نے بطور روزگار غیرملکی کوہ پیماؤں کی خدمت بطور پورٹر کی۔ لیکن بعد میں ان کے دل میں اپنے ملک کا جھنڈا دنیا کی بلند ترین چوٹیوں پر لہرانے کی اُمنگ پیدا ہوئی۔
غلام محمد کا کہنا ہے کہ محمد علی سدپارہ اکثر اوقات ملک میں ٹریننگ اسکولز کی کمی کا شکوہ کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ان کے علاقے کے لوگ نیپالی کوہ پیماؤں سے زیادہ طاقت ور ہیں تاہم ٹریننگ کی کمی کی وجہ سے ان کا علاقہ اس شعبے میں پیچھے رہ گیا ہے۔
غلام محمد کے مطابق گزشتہ سال دسمبر میں محمد علی سدپارہ نے مقامی نوجوانوں کے لیے راک کلائمبنگ کا اہتمام کیا۔ وہ نوجوانوں کو پروموٹ کرنے کے بارے میں کچھ کرنا چاہتے تھے۔ جب وہ یہاں ہوتے تھے تو لوگوں کو اپنا ہنر منتقل کرنے کی لگن میں رہتے تھے۔
اُن کے بقول وہ بہت ہی ہنس مکھ انسان تھے۔ ہنسی مذاق، شاعری، گلوگاری، رقص بس وہ ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے تھے تاکہ لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیر سکیں۔