امریکی صدارتی انتخابی مہم کے بارے میں متعدد نئے عوامی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ پچھلی سروے رپورٹوں کے مقابلے میں ڈیموکریٹک ہیلری کلنٹن کو ری پبلیکن امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ پر پھر سے سبقت حاصل ہوگئی ہے، جس کے لیے بہت سے ووٹروں کی رائے ہے کہ اُنھوں نے پہلے مباحثے میں بہتر کارکردگی دکھائی۔
زیادہ تر قومی جائزہ رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ٹرمپ سے آگے ہیں، جو جائیداد کے نامور کاروباری شخص ہیں اور پہلی بار کسی منتخب عہدے کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ساتھ ہی، وہ دیگر دو امیدواروں ’لبرٹیرین پارٹی‘ کے گیری جانسن اور ’گرین پارٹی‘ کے جِل اسٹائین سے چار یا پانچ فی صد کی شرح سے آگے ہیں۔
ٹرمپ کے ساتھ کانٹے کے مقابلے کی صورت حال میں، کلنٹن کی سبقت قدرے زیادہ ہے۔
دیگر فیصلہ کُن انتخابی ریاستوں میں مقابلہ قریب قریب ہے۔ یہ سروے گذشتہ ہفتے پیر کے روز کے مباحثے کے بعد لیے گئے، جن سے پتا چلتا ہے کہ کلنٹن کو ٹرمپ پر برتری حاصل ہو رہی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات قومی مقبولیت کی بنیاد پر نہیں جیتے جاتے، بلکہ اس کا انحصار ملک کی 50 ریاستوں کے نتائج پر ہوتا ہے، جب کہ زیادہ آبادی والی ریاستوں کو زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے، اور الیکٹورل کالج فیصلہ کُن کردار ادا کرتا ہے۔
’پولیٹیکو نیوز ویب سائٹ‘ کے مطابق، لگتا ہے کلنٹن امریکہ کی پہلی خاتون صدر بننے والی ہیں، جو اب اُن 11 ریاستوں میں سے سات میں آگے ہیں، جن کی پوزیشن پہلے واضح نہیں تھی، اور یوں، اُنھیں ٹرمپ پر الیکٹورل کالج کے 270 ووٹوں میں اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
ادھر متعدد بڑی ریاستوں میں کلنٹن کو برتری حاصل ہے جہاں برسہا برس سے ڈیموکریٹ صدارتی امیدواروں کو روایتی طور پر سبقت حاصل رہی ہے؛ اور متوقع طور پر وہ 8 نومبر کے انتخاب میں بھی اُنھیں ہی ووٹ دیں گے۔
سیاسی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ دو میں سے ایک ووٹر کی رائے میں کلنٹن نے ٹرمپ کے خلاف مباحثے میں بہتر کارکردگی دکھائی۔ اُنھوں نے ٹرمپ کو دفاعی انداز اپنانے پر مجبور کیا، اور چار عشروں سے قائم آمدن پر ٹیکس کے گوشوارے جاری کرنے سے انکار پر نکتہ چینی کی، خواتین کے خلاف اُن کی بیان بازی کی تاریخ کا حوالہ دیا، اور سالہا سال تک ناکام مہم چلانے کا ذکر کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ صدر اوباما کی امریکی شہریت کا دعویٰ درست نہیں اور یہ کہ وہ کینیا میں پیدا ہوئے تھے۔