امریکہ میں صدارتی انتخابات میں تقریباً چھ ہفتے باقی ہیں دونوں بڑی جماعتوں کے صدارتی امیدوار اپنے پہلے براہ راست مباحثے کے بعد پھر سے اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہو گئے ہیں۔
اکثر غیر جانبدار تجزیہ کاروں کے مطابق پیر کو ہونے والے مباحثے میں ڈیموکریٹک امیدوار ہلری کلنٹن کا ’کامیاب‘ رہیں۔ جس سے وہ اپنے حریف ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی برتری کی شرح میں مزید اضافہ کر سکتی ہیں۔
منگل کو شمالی کیرولائنا میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ہلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ مباحثے میں ان کے حریف کے پاس تفصیلات کی کمی تھی۔
"مجھے (مباحثے میں) کچھ کہنے کا موقع ملا تھا کہ وہ کونسی چیزیں ہو گی جو میں اگر اتنی خوش قسمت ہوئی کہ آپ کی صدر منتخب ہو جاؤں تو کرنا چاہوں گی۔ اور آپ کو یہ معلوم ہے کہ میں اس پرانے خیال پر گامزن ہوں کہ میں آپ سے ووٹ مانگ رہی ہوں تو آپ کو یہ بھی بتاؤں کہ میں کرنا کیا چاہتی ہوں۔"
مباحثے کے بعد ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس میں کامیاب رہے اور منگل کو دیر گئے فلوریڈا میں ان کا یہ موقف بھی سامنے آیا کہ وہ یہ مباحثہ اور بہتر انداز میں کر سکتے تھے۔
"نوے منٹ کے دورانیے میں، میں ان (ہلری کلنٹن کی) باتوں پر غور کرتا رہا اور میں نے خود کو بھی روکے رکھا۔ میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے وہ شرمندہ ہوں۔"
دونوں امیدواروں کے درمیان اب اگلا مباحثہ نو اکتوبر کو ہو گا۔
اٹلانٹا کی ایمورے یونیورسٹی سے وابستہ پولیٹیکل سائنس کے ماہر ایلن ابرامووٹز اور رائے عامہ کے تجزیہ کار نیٹ سلور دونوں کا ہی کہنا ہے کہ کلنٹن کی طرف سے ٹرمپ کو مباحثے میں مشکل سے دوچار کرنے اور خاص طور پر ان کے ٹیکس گوشواروں سے متعلق سوالات اور دیگر مالی معاملات کے بارے میں بحث سے وہ مزید دو پوائنٹس کی برتری حاصل کر سکتی ہیں۔
ابرامووٹرز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ٹرمپ کو تھوڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
"کلنٹن مباحثے میں پرسکون اور مجتمع نظر آئیں اور وہ معاملات پر بات کرنے کے قابل دکھائی دیں۔" ان کے بقول ٹرمپ "جارحانہ تھے، میرے خیال میں انھیں نسلی امتیاز اور صنفی معاملات پر مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔"
ذرائع ابلاغ کے جائزوں میں بھی ہلری کلنٹن کو پہلے مباحثے میں فاتح قرار دیا جا رہا ہے۔