|
لاہور کے نجی کالج میں طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کے معاملے پر طلبہ کا احتجاج جاری ہے۔ دوسری جانب وزیرِ اعلٰی پنجاب مریم نواز نے واقعے کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے۔
طالبہ مبینہ زیادتی کے خلاف لاہور میں چوتھے روز بھی طلبہ کی جانب سے مظاہرے ہوئے۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ حقائق سامنے لائے جائیں۔ دوسری جانب وزیرِ اعلٰی پنجاب مریم نواز شریف سمجھتی ہیں کہ طالبہ زیادتی کیس معاملہ جھوٹ بول کر جان بوجھ کر ایسے وقت میں اُبھارا گیا جب پاکستان میں مختلف ملکوں کے سربراہان ایک کانفرنس کے لیے پاکستان میں موجود تھے۔
طالبہ سے مبینہ زیادتی کے واقعہ پر مختلف کالجز کے طلبہ نے بدھ کو بھی شہر کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ نجی کالج کے مالکان بااثر افراد ہیں جن کے حکومت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں جس کی وجہ سے یہ معاملہ دبایا جا رہا ہے۔
احتجاج میں شریک طلبہ کا کہنا ہے کہ حکومت کالج انتظامیہ کے خلاف کارروائی کرے اور طالبہ زیادتی کیس کے حقائق سامنے لائے۔ طالبہ مبینہ زیادتی کیس کے خلاف لاہور کے مختلف کالجوں کے طلبہ نے گلبرگ، کینال روڈ، لال پل اور دیگر مقامات پر احتجاج کیا۔ پولیس نے احتجاج کرنے والے طلبہ کو منتشر کر دیا۔
'اگر کچھ نہیں ہوا تو سی سی ٹی وی فوٹیج کہاں ہیں'
احتجاج کرنے والے طلبہ میں سے ایک طالبِ علم محمد عرفان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر کچھ نہیں ہوا تو پھر طلبہ چار روز سے کیوں احتجاج کر رہے ہیں اور کالج سے سی سی ٹی وی کیمرے کیوں اُتارے گئے ہیں۔
بدھ کو لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ بطور ماں میرے لیے یہ واقعہ بہت اہم ہے۔ پولیس کو رپورٹ ملی کہ ایک نجی کالج میں ریپ کا واقعہ ہوا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی گارڈ پر ریپ کا الزام لگا، ہم اس دن سے آج تک ریپ کا شکار لڑکی کو تلاش کر رہے ہیں۔ ایک لڑکی کا نام سامنے آیا جو دو اکتوبر سے اسپتال کے آئی سی یو میں تھی۔
وزیرِ اعلٰی پنجاب کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیا گیا کہ اسپتال میں داخل ہونے والی بچی ہی متاثرہ بچی ہے۔ بچی کی والدہ نے کہا کہ میری پانچ بچیاں ہیں، ایسی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
مریم نواز کے بقول سوشل میڈیا پر یہ خبر چلی اور جھوٹی کہانیاں گھڑی گئیں، طلبہ کو اشتعال دے کر ایک مہم چلائی گئی۔
واضح رہے کہ صوبائی دارالحکومت لاہور میں پنجاب کالج کے گرلز کیمپس میں ایک طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کا معاملہ نو اکتوبر کو سامنے آیا جس کے بعد سے مذکورہ کالج کے باہر اور شہر کے دیگر علاقوں میں طلبہ کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ
لاہور کے نجی کالج میں طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کیس پر حکومت پنجاب کی ہائی پاور کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ بھی سامنے آ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کمیٹی کی مبینہ متاثرہ لڑکی اور والدین سے ان کے گھر پر تین گھنٹے ملاقات ہوئی اور منگل کو 36 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبہ اور والدین نے سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے والوں کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی ہے۔
کمیٹی نے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران، ڈائریکٹر پنجاب گروپ آف کالجز عارف چوہدری، پرنسپل کالج ڈاکٹر سعدیہ جاوید، اے ایس پی گلبرگ شاہ رخ خان، سیکیورٹی انچارج پنجاب کالج گلبرگ کیمپس 10، ریسکیو آفیسر شاہد اور 28 طلبہ کے انٹرویو ریکارڈ کیے۔
واضح رہے کہ مذکورہ واقعے کے بارے میں غلط معلومات اور انتشار پھیلانے والوں کے خلاف انکوائری کے لیے وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) ایف آئی اے نے سائبر کرائم سیل کی سات رکنی کمیٹی بھی قائم کر دی۔
نجی کالج پنجاب گروپ آف کالجز کے ڈائریکٹر آغا طاہر اعجاز نے گرلز کیمپس کی پرنسپل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے کیمپس کے کیمرے اور ریکارڈنگ پولیس کے پاس ہے۔ اُنہوں نے بہت سے افراد سے رابطے کیے، تلاش کی مگر کچھ نہیں ملا۔
آغا طاہر اعجاز کا کہنا تھا کہ جس گارڈ کا نام لیا گیا وہ چھٹی پر تھا۔ اسے بلایا گیا جو پولیس کی زیرِ حراست ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ واقعے سے متعلق بہت سی طالبات گفتگو کر رہی ہیں جن کا تعلق اُن کے کالج سے نہیں ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی طالبہ مبینہ زیادتی کیس میں فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔