دنیا بھر کی طرح جمعہ کو پاکستان میں بھی انسداد بدعنوانی کا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد بدعنوانی کے باعث مختلف شعبوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کے بارے میں عوامی شعور و آگہی کو اجاگر کرنا ہے۔
اس دن کی مناسبت سے پاکستان میں بھی مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک ایسی ہی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ممنون حسین نے کہا کہ بدعنوانی احساس محرومی کو جنم دیتی ہے اور ریاست اور معاشرے کے تمام طبقوں کی مشترکہ کوششوں سے ہی اس کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے قابل ذکر پیش رفت کی ہے تاہم ان کے بقول اب بھی اس حوالے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
"بدعنوانی پر قابو پانے کے مختلف طریقوں کے بارے میں معاشرے میں بہت سارے سوالات موجود ہیں جن پر غور و فکر کر کے احتساب کے عمل کو مزید شفاف اور موثر بنانا ضروری ہے یہ کام اسی صورت میں ممکن ہے اگر بدعنوانی کی روک تھام کرنے والے ادارے ایک دوسرے کے دست و بازو بن کر معاشرے کی کالی بھیڑوں پر اتنے موثر طریقے پر ہاتھ ڈالیں کہ انہیں بچنے کا کوئی راستہ نا مل سکے۔"
سماجی اور اقتصادی امور پر نظر رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ بدعنوانی نا صرف ایک معاشرتی برائی ہے بلکہ یہ کسی بھی معاشرے کی اقتصادی اور سماجی ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
اسلام آباد میں قائم ایک غیر سرکاری ادارہ برائے پائیدار ترقی کے سربراہ ڈاکٹر عابد سلہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بدعنوانی کا تدارک اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کے محرکات کو ختم نہیں کر دیا جاتا ہے۔
"صرف (بدعنوانی کے خلاف) ترغیب اور تعزیراتی اقدام سے ہی بدعنوانی کو نہیں روک سکتے ہیں اصل چیز یہ ہے کہ ان محرکات کا سد باب کیا جائے جس کی وجہ سے معاشرے میں بدعنوانی فروغ پاتی ہے اور سماجی نا انصافی ایک بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بدعنوانی فروغ پا رہی ہے۔"
عابد سلہری نے مزیدکہا کہ احتساب اور شفافیت کے عمل کو موثر بنا کر بدعنوانی کے خاتمے کے طرف پیش رفت کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کی معیشت کو کئی طرح کی چیلنج درپیش ہیں ان میں بدعنوانی بھی ایک سنگین چیلنج ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے ناسور سے موثر طریقے سے نمٹنے سے نا صرف ملک میں سرمایہ کاری میں اضافے کو فروغ دیا جا سکتا ہے بلکہ ملک کی پائیدار اقتصادی و سماجی ترقی کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔