|
کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کرنے والے طالب علم رہنماؤں اور یونیورسٹی انتظامیہ کے درمیان پیر کو مذاکرات ناکام ہونے کے بعد کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
امریکہ کی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں کا آغاز تقریبا دو ہفتے پہلے نیویارک کی کولمیبیا یونیورسٹی سے ہوا تھا جس کے بعد مظاہروں کا سلسلہ امریکہ بھر میں درجنوں یونیورسٹیوں تک پھیل گیا۔
کولمبیا سمیت کئی یونیورسٹیوں میں طلبہ نے کیمپس کے اندر خیمے لگا کر احتجاجی کیمپ قائم کیے اور کئی مقامات پر کیمپس کی انتظامیہ نے طلبہ کو باہر نکالنے کے لیے پولیس طلب کی۔
اے ایف پی نے بتایا ہے کہ اختتام ہفتہ پولیس نے چار مختلف مقامات پر کارروائیاں کرتے ہوئے 275 طالب علموں کو گرفتار کیا۔
احتجاجی طلبہ کی گرفتاریوں کی اجازت سب پہلے کولمبیا یونیورسٹی کی سربراہ مینوس شفیق نے دی تھی جس کی ابتدا نیویارک میں 100 سے زیادہ طالب علموں کو حراست میں لیے جانے سے ہوئی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ گرفتار کیے جانے والوں کی تعداد 700 تک پہنچ چکی ہیں۔ اور اس دوران ہنگامہ آرائیوں میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے مظاہرین سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔
غزہ میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی ہلاکتوں نے طالب علموں کے مظاہروں کو جنم دیا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے احتجاجی اسٹوڈنٹس کا اہم مطالبہ یہ ہے کہ یونیورسٹی اسرائیل سے اپنے مالی معاملات منقطع کرے۔
دوسری جانب کولمبیا یونیورسٹی میں زیر تعلیم یہودی طلبہ نے، جن میں سے اکثر نے کیمپس چھوڑ دیا ہے، مطالبہ کیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نہ صرف کیمپس کو مظاہرین کے خیموں سے صاف کرے بلکہ اسرائیل کے ساتھ اپنے مالی تعلقات برقرار رکھے۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے احتجاج کرنے والے طالب علموں کو یونیورسٹی سے نکالنے اور ضابطے کی کارروائیوں کی دھمکی ہے، جب کہ طلبہ نے کہا ہے کہ وہ اپنے کیمپ کے دفاع کے لیے پرعزم ہیں۔
غزہ کی جنگ میں کثیر ہلاکتوں نے، جن میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے، یونیورسٹی کی انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ ایک جانب امریکی آئین میں دیے گئے اظہار کی آزادی کے حقوق ہیں، جن کے استعمال کا دعویٰ مظاہرین کر رہے ہیں تو دوسری طرف یہ شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ یہ مظاہرے یہود دشمنی اور تشدد کی دھمکیوں کی جانب جا رہے ہیں۔
کولمبیا یونیورسٹی کی صدر مینوش شفیق نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہمارے بہت سے یہودی طالب علموں سمیت کئی دوسرے اسٹوڈنٹس نے حالیہ ہفتوں میں کشیدہ ماحول کے باعث کیمپس چھوڑ دیا ہے، جو ایک المیہ ہے۔
انہوں نے مظاہرین کے ساتھ بات چیت ٹوٹنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہود مخالف زبان اور اقدامات ناقابل قبول ہیں اور تشدد کی کالز قابل نفرت ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے احتجاج کرنے والوں سے خیمے خالی کرانے کے لیے بات چیت کی، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک گروہ کی جانب سے اپنے خیالات کے اظہار کا حق، دوسرے گروہ کے بات کرنے، پڑھانے اور تعلیم حاصل کرنے کے حق کو چھین نہیں سکتا۔
مظاہرین کے لیڈروں نے یہود دشمنی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے احتجاج کا ہدف اسرائیلی حکومت اور غزہ میں فلسطینیوں کو ہلاک کیے جانے کی کارروائیاں ہیں۔
وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ زیادہ تر تشدد کے واقعات میں وہ افراد ملوث ہیں جو اسٹوڈنٹس نہیں ہیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے مظاہرین کو پیر دوپہر دو بجے تک اپنے خیمے خالی کرنے کا نوٹس دیا ہے۔ جب کہ طلبہ کے ایک گروپ نے دوسرے طالب علموں سے خیموں کے تحفظ کے لیے اکھٹا ہونے کی اپیل کی ہے۔
اسرائیل حماس جنگ 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر عسکریت پسندوں کے ایک بڑے اور اچانک حملے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں 1170 افراد ہلاک اور 250 کے لگ بھگ یرغمال بنا لیے گئے تھے۔
غزہ میں حماس کی وزارت صحت کے مطابق اس جنگ میں، جسے چھ ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں، فلسطینیوں کی ہلاکتیں ساڑھے 34 ہزار سے زیادہ ہیں۔
(اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)