بھارتی ریاست کرناٹک اسمبلی کے انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس نے واضح برتری سے میدان مار لیا ہے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے انتخابات میں شکست بھی تسلیم کر لی ہے۔
ہفتے کی شام تک آنے والے نتائج کے مطابق کانگریس کو 224 کے ایوان میں 136 نشتیں مل گئی ہیں جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی 65 نشستیں جیت پائی ہے۔ کرناٹک میں حکومت بنانے کے لیے 113 اراکین کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ کانگریس اس سے کہیں زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
علاقائی جماعت جنتا دل (سیکیولر) 19 نشستوں میں کامیاب ہوئی ہے۔ علاقائی جماعتوں کلیانا راجیہ پرگتی پکشھا اور سروودیہ کرناٹکا پکشھا نے ایک ایک نشست حاصل کر لی ہے جب کہ دو آزاد امیدواروں کو بھی کامیاب قرار دیا گیا ہے۔
کرناٹک کے موجودہ وزیرِ اعلیٰ اور بی جےپی لیڈر بسواج سوماپا بومئی نے صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں کہا "ہم نشان تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اس کے باوجود کہ وزیرِ اعظم سے لے کر عام بی جے پی کارکن نے ان انتخابات میں بہترین کارکردگی دکھانے کے لیے بھرپور کوشش کی تھی۔"
انہوں نے مزید کہا کہ ہم کرناٹک اسمبلی کے انتخابات کے نتائج کو اپنے آپ پر حاوی نہیں ہونے دیں گے بلکہ اس مشکل صورتِ حال سے بہتر انداز میں باہر آنے کا مکمل حوصلہ رکھتے ہیں۔
کانگریس کے سرکردہ لیڈر راہل گاندھی نے کرناٹک میں کانگریس پارٹی کی جیت کو اس کے غریب عوام اور سیکیولر طاقتوں کی فتح قرار دے دیا۔
انہوں نے نئی دہلی میں نامہ نگاروں کو بتایا "ہم نے کرناٹک میں یہ لڑائی نفرت کے خلاف محبت کے ساتھ لڑی۔ ہماری کامیابی یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ ملک محبت کی زبان جانتا اور سمجھتا ہے۔ کرناٹک میں نفرت کا بازار بند ہوگیا ہے اور محبت کی دکان کھل گئی ہے۔"
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھی کانگریس کو کرناٹک انتخابات میں جیت پر مبارکباد دی ہے۔
راہل گاندھی نے جنہوں نے اپنی بہن پرینکا گاندھی کے ساتھ مل کر کرناٹک میں کانگریس پارٹی کے حق میں انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا کہا کہ نئی حکومت عوام سے کیے گئے تمام وعدوں کو پورا کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ایسا اب بھارت کی ہر ریاست میں ہوگا۔
ان انتخابات میں اصل مقابلہ بی جے پی، کانگریس اور جنتا دل سیکیولر (جے ڈی ایس) کے درمیان ہی تھا اگرچہ عام آدمی پارٹی نے بھی جو دہلی اور ریاست پنجاب میں بر سرِ اقتدار ہے انتخابات میں اپنا لوہا منوانے کی کوشش کی۔
عام آدمی پارٹی بھی جو دہلی اور ریاست پنجاب میں بر سرِ اقتدار ہےان انتخابات میں قسمت آزمائی کی تھی۔
دلت لیڈر مایا وتی کی قیادت میں بہوجن سماج پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، اسد الدین اویسی کی آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا اور درجنوں آزاد امیدوار بھی میدان میں اترے تھے۔
لیکن ان پارٹیوں کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے یہاں تک کہ ان کے کئی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئی ہیں۔
یہ اسمبلی انتخابات بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لیے انتہائی اہم ہیں کیوں کہ بھارت کے کئی سیاسی مبصرین کی رائے میں کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے نتائج بھارت میں اگلے برس ہونے والے عام انتخابات کے لیے رجحان ساز ثابت ہو سکتے ہیں۔
کئی ہفتے تک جاری رہنے والی انتخابی مہم کے دوران بی جے پی، کانگریس اور جے ڈی ایس کے چوٹی کے لیڈروں نے روڑ شوز، ریلیوں اور عوامی جلسوں کا انعقاد کیا تھا اور اس کے علاوہ گھر گھر جا کر رائے دہند گان کو لبھانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
بی جے پی جس نے 2018 میں منعقد کرائے گئے اسمبلی انتخابات میں 104نشستیں حاصل کرکے زمامِ اقتدار سنبھال لی تھی کی انتخابی مہم کو فعال بنانے کے لیے خود بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی پیش پیش نظر آئے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کو امید تھی کہ ان کی کرشماتی شخصیت اور قوی اور فعال مہم ہی ریاست میں گزشتہ 38 برس کے دوران ، ہر اسمبلی انتخاب کے دوران نظر آئے حکومت مخالف رجحان کو توڑے میں کامیاب ہو گی اور پارٹی ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے دوبارہ حکومت بنا لے گی۔
بی جے پی کے مقابلے میں جے ڈی ایس کی انتخابی مہم نسبتاً کم جارحانہ تھی ۔ پارٹی نے اپنی مہم کے دوران جس کی قیادت سابق وزیرِ اعلیٰ ایچ ڈی کماراسوامی نے کی زیادہ تر مقامی اہمیت کے معاملے اٹھائے اور لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ ریاست میں ایک صاف ستھری حکومت قائم کرنا چاہتی ہے جو لوگوں کے مسائل حل کرنے میں متحرک رہے گی اور کرپشن سمیت ہر قسم کی بدعنوانیوں سے پاک ہوگی۔
کانگریس نے ریاست میں گزشتہ پانچ سال کے دوران بی جے پی کی حکومت کی "مایوس کن" کارگردگی کو خوب اچھالا اور قومی سطح کے معاملات کے حوالے سے بھی پارٹی کو ویلن ثابت کرنے کی کوشش کی۔
اس کی انتخابی مہم کی قیادت میں سابق وزیرِ اعلیٰ سدھار میا، کرناٹک میں کانگریس پارٹی کے صوبائی صدر ڈی کے شیو کمار اور ملکارجن کھڑگے جو کانگریس پارٹی کے قومی صدر ہیں پیش پیش تھے۔
انتخابی مہم کے آخری مرحلے پر کانگریس کے صدر ارجن کھرگے نے اپنی ہوم اسٹیٹ کرناٹک کے عوام سے یہ جذباتی اپیل کی تھی کہ وہ ڈھلتی عمر کے دورسے گزر رہے ہیں اور ان کی جان کو بی جے پی سے خطرہ ہے۔
دوسری جانب پارٹی کے لیڈروں راہل گاندھی اور ان کی بہن پرینکا گاندھی ودرا نے ریاست کے طول و عرض میں کئی ہفتے گزارے اور رائے دہندگان بالخصوص نوجوان ووٹروں کو لبھانے کی بھرپور کوشش کی۔
مودی نے 29 اپریل کو شروع کی گئی اپنی مہم کے دوران 20 سے زیادہ عوامی جلسوں سے خطاب کیا اور نصف درجن روڑ شوز کیے۔ اُن کا انتخابی نعرہ "اس بار کا فیصلہ : اکثریتی بی جے پی حکومت" تھا۔
اس کے علاوہ بی جے پی نے زیادہ تر قومی اہمیت کے معاملات اٹھائے اور وفاقی حکومت کے ان پروگراموں اور اسکیموں کو اپنی کامیابیوں کے طور پر ووٹروں کے سامنے پیش کیا جن کا مقصد عوامی فلاح و بہبود ہے اورملک کو ایک اقتصادی طاقت اور ویشو گرو یا عالمی پیشوا بنانا ہے۔