کبھی کبھی کوئی افسانہ سچائی سے زیادہ دلکش ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سازشی تھیوری کی مقبولیت کی وضاحت کرنے کی ایک وجہ یہی ہے۔ سازشی نظریات ہمیشہ سے ہی موجود رہے ہیں۔
کبھی کبھی کہانی حقیقت کے مقابلے میں زیادہ دلکش ہوتی ہے اور توجہ اسی جانب کھچی چلی جاتی ہے۔
اگر کہانی بیان کرنے والا رنگ آمیزی کا ماہر ہو اور وہ انسانی نفسیات کا بھی تھوڑا بہت علم رکھتا ہو تو وہ کہانی کو ایسی شکل دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ چاہے لوگوں کے سامنے سچ موجود ہی کیوں نہ ہو، وہ اعتبار کہانی پر ہی اعتبار کرتے ہیں۔
جیسے جیسے سوشل میڈیا کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے، اکثر اوقات سچ پس منظر میں چلا جاتا ہے اور جھوٹی کہانیاں اور سازشی نظریات لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتے ہیں۔
قبول عام کہانیاں اور سازشی نظریات عالمی واقعات سے لے کر چھوٹی سطح تک ہر جگہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ اکثر اوقات حقائق ان کی تائید نہیں کرتے اور ان کہانیوں اور نظریات میں جو وضاحتیں پیش کی جاتی ہیں وہ بھی وزن نہیں رکھتیں، لیکن لوگ انہیں قبول کر لیتے ہیں، اکثر اوقات اس لیے بھی کہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسا ہی ہو۔
سیاست اور ثقافت میں سازشی نظریات زیادہ رنگ جماتے ہیں اور زیادہ قابل قبول ہوتے ہیں۔
SEE ALSO: ترکی:غلط معلومات پھیلانے کے قانون کے تحت صحافی کو سزاان کی ایک نمایاں مثال کووڈ۔19 کا پھیلاؤ ہے۔ جس کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں موجود ہیں اور اس سے بچاؤ کی ویکسین کے متعلق بھی کئی کہانیاں نہ صرف مشہور ہیں بلکہ بہت سے لوگ ان پر یقین بھی کرتے ہیں۔
خاص طور پر اس سازشی تھیوری پر کہ کووڈ۔19 کی ویکسین میں خاص مقاصد کے حصول کے لیے مائیکرو چپ ڈالی گئی ہے۔
مائیکروچپ کے علاوہ بھی ویکسین کے متعلق مختلف ملکوں اور علاقوں میں اور بھی کئی کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں جن پر لوگ یقین رکھتے ہیں۔ انہی سازشی نظریات کی بنا پر دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے ویکسین لگوانے سے انکار کیا تھا اور ان میں سے ہزاروں کووڈ کی وبا کا لقمہ بن گئے تھے۔
پاکستان میں پولیو کا مرض اس لیے بھی ختم نہیں ہو سکا کہ پولیو کی ویکسین کے بارے میں سازشی تھیوریاں موجود ہیں۔ اور ان نظریات پر کچھ لوگ اس شدت سے بھروسہ کرتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلانے والوں پر حملہ کرنے سے بھی چوکتے۔
امریکہ میں 2020 کے انتخابات دھاندلی کی سازشی تھیوری نے کیپٹل ہل کر حملے کے واقعہ کو جنم دیا اور بائیڈن کی بطور صدر توثیق کا قانونی عمل کئی گھنٹوں تک رکا رہا تھا۔ یہ امریکی تاریخ کا پہلا ایسا حیران کن واقعہ تھا۔
SEE ALSO: روس کے جعلی پراپیگنڈہ پھیلانے والے سوشل میڈیا نیٹ ورک کو غیر فعال کر دیا گیا: میٹاپاکستان سمیت اکثر ملکوں میں انتخابات کے بعد کہانیاں منظر عام پر آتی ہیں اور قبول کر لی جاتی ہیں۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ سازشی نظریات قبول کیے جانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ ایک طرح کا ذہنی شارٹ کٹ مہیا کرتے ہیں۔
سازشی نظریات کاپھیلاؤ آج کا قصہ نہیں ہیں۔ کئی دہائیوں سے اس بارے میں سروے ہو رہے ہیں اور ان سے تقربیاً ایک ہی طرح کے نتائج سامنے آتے رہے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں حقائق کی بجائے سازشی تھیوریاں اور جھوٹی کہانیاں لوگوں کے لیے زیادہ قابل قبول رہی ہیں۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ سازشی نظریات اس لیے زندہ رہتے ہیں کیونکہ انسان اپنے گرد و پیش کی دنیا کی وضاحت حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر حقائق وضاحت نہ کر پائیں تو ان خالی جگہوں کو کہانیاں اور سازشی نظریات بھر دیتے ہیں۔
SEE ALSO: کرونا وائرس کے بارے میں غلط معلومات کو پھیلنے سے روکا جائے، امریکی سرجن جنرلنفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ جب کوئی چیز لوگوں کی سمجھ کو چیلنج کرتی ہے تو وہ ان جگہوں کو جس کے بارے میں معلومات تشنہ ہوتی ہیں اپنے بہترین تخیل سے بھر لیتے ہیں یا کسی ایسے شخص کی بات قبول کر لیتے ہیں جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے اس کا علم ہے۔
سازشی نظریات کی قبولیت اور پھیلاؤ میں وقت اور حالات کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ویکسین میں مائیکرو چپ کے استعمال کا سازشی نظریہ ایک ایسے وقت میں پھیلا جب کرونا وبا کے باعث دنیا بھر میں لاک ڈاؤن تھا اور لوگ خوف و ہراس اور غیریقینی صورت حال سے گزر رہے تھے۔ ایسی فضا ٹیکنالوجی سے متعلق خدشات کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔
سازشی نظریات اور جھوٹی کہانیوں کی قبولیت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ جب لوگوں کے پاس یہ معلومات پہنچتی ہیں تو ان پر یقین کرنے والوں کو یہ سوچ اطمینان اور خوشی کا احساس دلاتی ہے کہ ان کے پاس اندرونی معلومات ہیں چاہے انہیں اس کی حقیقت پر شبہ ہی کیوں نہ ہو۔
SEE ALSO: 'ڈس انفارمیشن' پھیلانے میں روس اور چین دونوں ملوث ہیں، مطالعاتی رپورٹ میں الزامانٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے جھوٹی کہانیوں اور سازشی نظریات کو پھیلانا اور ان تک پہنچنا بہت آسان بنا دیا ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز، جس میں انسان کی کچھ دلچسپی ہو، اپنے انداز میں دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ جب اسے اپنی خواہش سے ملتی جلتی معلومات انٹرنیٹ یا کہیں اور سے ملتی ہیں تو وہ یہ سوچے بغیر کہ اس میں کتنا سچ ہے، فوراً قبول کر لیتا ہے۔
کچھ لوگ کسی شخص کو اپنے ایک آئیڈیل کے طور پر قبول کر لیتے ہیں۔ پھر وہ اس کے ہر عمل کو افضل اور ہر بات کو سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ چاہے ان کے سامنے ٹھوس حقائق موجود ہی کیوں نہ ہوں، وہ ان پر اعتبار نہیں کرتے اور حقائق کو جھٹلانے کے لیے جھوٹے سہارے ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ ایسے واقعات تاریخ کے ہر دور میں موجود ہیں، اور رہیں گے۔
(اس آرٹیکل کے لیے کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)