رسائی کے لنکس

پاکستان میں نئے کرنسی نوٹ کیوں لائے جا رہے ہیں؟


پاکستان کے مرکزی بینک نے ملک میں نئے کرنسی نوٹوں کی تیاری پر کام شروع کر دیا ہے اور آئندہ دو برسوں میں ان کے اجرا کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے دیگر مرکزی بینکوں کی طرح کرنسی نوٹوں کی نئی سیریز متعارف کرانے کا مقصد نئے نوٹوں میں جدید سیکیورٹی فیچرز متعارف کرانا ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کہتے ہیں کہ نئے کرنسی نوٹوں کا رنگ، سیریل نمبرز، ڈیزائن بھی مختلف ہو گا جس میں ہائی سیکیورٹی فیچرز ہوں گے تاکہ جعلی نوٹوں کی روک تھام ہو سکے۔

یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ایک طویل معاشی بحران سے بھی گزر رہا ہے۔

پاکستان اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ نو ماہ پر مشتمل اسٹینڈ بائی پروگرام میں ہے۔ لیکن یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ حکومت کو اس وقت کرنسی نوٹس کی تبدیلی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اور اس کے معیشت پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟

کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرنسی نوٹوں کی تیاری میں سیکیورٹی فیچرز بہتر بنانے سے جعلی کرنسی کی روک تھام ہوتی ہے۔ ساتھ ہی معیشت کو دستاویزی بنانے اور کالا دھن سفید کرنے کے لیے بھی یہ اہم اقدام ہو سکتا ہے۔

'جعلی نوٹوں پر قابو پانے کے لیے نئے نوٹوں کا اجرا ضروری ہے'

ماہر معاشیات اور پبلک پالیسی ایکسپرٹ ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کا یہ اقدام یہ سوچ کر اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان میں جعلی نوٹوں کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔

اُن کے بقول یہ ایک مثبت بات ہے لیکن اس کے لیے جامع فریم ورک کی ضرورت ہے اور یہ واضح کرنا چاہیے کہ کیا اس کے نتیجے میں پرانے نوٹ منسوخ ہوں گے؟ یا صرف نوٹوں کی تبدیلی ہو گی۔

غیر دستاویزی معیشت کو روکنے کے لیے یہ قدم اہم تو ہے لیکن ابھی اس کا خاکہ واضح نہیں۔ تاہم مجموعی طور پر پاکستان میں کرنسی کی گردش زیادہ ہے اور معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے اس طرح کے اقدامات کرنے ہوں گے۔

'نئے نوٹوں کے لیے یہ وقت سازگار نہیں'

سابق بینکر اور کالم نگار ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کے لیے یہ وقت سازگار نہیں۔

اُن کے بقول ایسے میں جب ملک میں پہلے ہی سیاسی پارہ ہائی ہے، معاشی عدم استحکام ہے اور الیکشن سر پر ہیں، مرکزی بینک کو چاہیے تھا کہ وہ یہ اعلان حکومت سازی کے عمل کے بعد کرتا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ایسا بیان سامنے آنے سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ نئے نوٹوں کی جگہ پرانے نوٹ منسوخ کر دیے جائیں گے، اس سے خواہ مخواہ مزید بھونچال آ جائے گا۔

نئے نوٹوں کے اجرا سے ملکی معیشت پر کوئی اچھا اثر پڑ سکتا ہے؟

اسٹیٹ بینک کی جانب سے آنے والی وضاحت کے بعد جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کرنسی نوٹ فوری تبدیل نہیں کیے جا رہے۔

ڈاکٹر شاہد کے خیال میں اس اقدام کا اسی صورت میں معیشت کو زیادہ فائدہ ہو گا، اگر بینکوں میں نوٹ تبدیل کرانے آنے والوں سے یہ بھی پوچھا جائے کہ یہ رقم کہاں سے آئی تھی۔

اُن کے بقول اس طرح حکومت کو معیشت کو دستاویزی بنانے میں مدد ملے گی۔ لیکن ان کے خیال میں ایسا کرنا مشکل ہے کیوں کہ حکومت میں شامل کئی عناصر اور طاقت ور طبقات جان بوجھ کر ایسا کرنے سے کتراتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی بینک کو چاہیے کہ وہ پانچ ہزار مالیت کے مزید نوٹ چھاپنا بند کردے کیوں کہ یہ نوٹ درحقیقت ملک میں بدعنوانی کا پیسہ آسانی سے چھپانے اور رشوت کا ذریعہ بنتا ہے۔

انہوں نے مثال دی کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت اتنی بڑی معیشت ہے لیکن وہاں تو پانچ ہزار کا نوٹ نہیں چلتا۔

ڈاکٹر شاہد کا کہنا ہے کہ ملک میں کالا دھن بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے کیش اسمگلنگ بھی بڑھی ہے جو دہشت گردی اور منی لانڈرنگ میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

'گردشی کرنسی کی مالیت زیادہ ہونے سے مہنگائی بڑھتی ہے'

ادھر اسٹیٹ بینک کے تفصیلی بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ کرنسی نوٹ نئی سیریز کے اجرا کے بعد بھی گردش میں رہیں گے۔ جب نئے نوٹ جاری ہو چکے ہوں گے اور کافی تعداد میں گردش میں آ جائیں گے تب موجودہ نوٹوں کو گردش سے نکالنے کا فیصلہ بتدریج اور مرحلہ وار کیا جائے گا۔

معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں دنیا میں کرنسی کی گردش کی شرح جی ڈی پی کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔

مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت موجود سات ہزار 680 ارب روپے مالیت کے کرنسی نوٹ اور سکے گردش میں ہیں۔

ماہرین کے خیال میں پاکستان دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں گردشی کرنسی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس قدر زیادہ کرنسی سرکولیشن کا نتیجہ افراطِ زر یعنی مہنگائی بڑھنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

مرکزی بینک کرنسی نوٹوں کی سیریز کی ڈیزائننگ کے سلسلے میں ابتدائی اقدام کے طور پر، اسٹیٹ بینک جدید اور موضوعاتی ڈیزائن آئیڈیاز کے حصول کے لیے آرٹ کا ایک مقابلہ منعقد کر رہا ہے۔

مقابلے میں مقامی فن کار، ڈیزائنر اور آرٹ کے طلبہ 11 مارچ تک اپنے ڈیزائن اسٹیٹ بینک کو بھجوا سکتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG