پاکستان کے ساتھ تجارت میں مشکلات؛ 'افغان تاجر اب دوسری منڈیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں'

  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی حجم مسلسل کم ہو رہا ہے۔
  • تجارت کم ہونے سے دونوں اطراف کے تاجر پریشان ہیں۔
  • تاجروں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی تجارتی منڈیاں ایک دوسرے کے لیے موزوں ہیں۔ لیکن آئے روز کے مسائل سے تجارت میں رکاوٹیں آتی ہیں۔
  • لاہور سے صبح روانہ ہونے والا ٹرک آسانی سے شام کو کابل جب کہ کابل سے روانہ ہونے والا ٹرک پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں اپنا مال اُتار سکتا ہے: خان جان الکوزئی

پشاور -- حاجی میرویس حاجی زادہ کابل کے رہائشی ہیں۔ وہ گزشتہ 30 سال سے تجارت سے وابستہ ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت زراعت افغان تاجروں کی سب سے بڑی کیش کراپ ہے۔ تاہم آئے روز سرحد کی بندش کی وجہ سے افغان تاجروں کو انگور، ٹماٹر، خربوزے اور سبزیوں کی مد میں لاکھوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

ان کے بقول بد قسمتی سے دیگر ممالک چین اور ایران کے ساتھ بارڈر پر پاکستان کی تجارت کو کوئی ایسے مسائل نہیں ہیں۔ لیکن ہر وقت افغانستان کے ساتھ ایسے مسائل ہوتے ہیں اور خاص کر ایسے اوقات میں جب افغانستان کے پھل اور سبزیاں مارکیٹ میں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔

ان کے بقول افغانستان کے تاجروں کا تو نقصان ہے ہی دوسری جانب پاکستان کے تاجروں کا نقصان بہت زیادہ ہے کیوں کہ افغانستان کا 80 فی صد دارومدار پاکستانی اشیا پر ہوتا ہے۔

حاجی زادہ کی طرح بہت سے افغان تاجر اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں سردمہری کا اثر دونوں ہمسایہ ممالک کے تجارتی حجم میں بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔

پاکستان، طالبان حکومت پر یہ زور دیتا رہا ہے کہ وہ کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کرے کیوں کہ یہ گروپ افغانستان سے پاکستان کے اندر کارروائیاں کرتا ہے۔

طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتی ہے۔

افغان تاجروں کی دیگر ممالک کی جانب نظریں

تاجروں کا کہنا ہے کہ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت تاریخ کی کم سطح پر آ گئی ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو سرحد کے آس پاس رہنے والے معاشی طور پر شدید متاثر ہو سکتے ہیں کیوں کہ مقامی افراد کی بڑی تعداد سرحد پار تجارت سے وابستہ ہے۔

پاک افغان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے صدر خان جان الکوزئی کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم، چمن، خرلاچی، غلام خان اور انگور اڈہ کی صورت میں پانچ تجارتی گزرگاہیں ہیں۔

اُن کے بقول باہمی تجارت کے ساتھ ساتھ پاکستان افغان سرزمین کو بطور ٹرانزٹ استعمال کرتے ہوئے اپنی تجارت وسطی ایشیائی ممالک تک بڑھا سکتا ہے اور وہاں سے خام مال کی صورت میں اپنی فیکٹریوں کو چلا سکتا ہے۔

لیکن اُن کے بقول بدقسمتی سے ہر گزرتے دن کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات میں خرابی کے باعث تاجر برادری شدید مشکلات کا شکار ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ تجارتی حجم میں بھی تیزی دیکھنے کو ملے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے پہلے سال تو تجارت ایک ارب ڈالر کے قریب رہی جب کہ دوسرے سال کم ہو کر تقریباً 80 کروڑ ڈالر تک محدود ہو گئی جب کہ اب صورتِ حال یہ ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس میں مزید کمی دیکھی جا رہی ہے۔

خان جان الکوزئی کے بقول دونوں ممالک کی تجارتی منڈیاں ایک دوسرے کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔

اُن کے بقول لاہور سے صبح روانہ ہونے والا ٹرک آسانی سے شام کو کابل جب کہ کابل سے روانہ ہونے والا ٹرک پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں اپنا مال اُتار سکتا ہے جس سے دونوں ممالک کے عوام کم سے کم وقت میں فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔

ان کے بقول اس وقت افغانستان میں انار، خربوزہ، خشک میوہ جات، انگور اور سبزیوں سے متعلقہ تاجر برادری مشکلات سے دوچار ہیں جب کہ پاکستان میں کیلا، مالٹا، آڑو اور سیمنٹ انڈسٹری سے منسلک تاجر پریشان ہیں۔

الکوزئی کے بقول ان تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد افغان تاجر اب نئی منڈیوں کی تلاش میں ہیں۔ اس حوالے سے ایران کے ساتھ چاہ بہار اور وسطی ایشیائی منڈیوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔

یاد رہے کہ طالبان حکومت کے نائب وزیراعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر تواتر کے ساتھ ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کا دورہ کر رہے ہیں۔

الکوزئی کے بقول پاکستان کے ساتھ تجارت محدود ہونے سے اب تاجروں نے 55 فی صد تجارت کا رُخ وسطی ایشیائی ممالک ازبکستان، کرغستان اور قازقستان کی جانب موڑ دیا ہے۔

کنٹینرز کی لمبی قطاریں

ضلع خیبر میں داخل ہوتے ہی کنٹینروں کی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملتی ہیں جو کہ افغانستان جانے کے منتظر ہیں۔ اسی طرح طورخم سرحد کے اس پار تاحدِ نگاہ سبزیوں اور میوہ جات کے کنٹینر دیکھے جا سکتے ہیں۔

وزارت تجارت کے ایک سینئر اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم تقریبا ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ان کے بقول اس وقت کوکی خیل قبائل نے دھرنا دیا ہوا ہے جس کی وجہ سے تجارتی راستے بند ہیں اور تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ٹرانزٹ ٹریڈ پر دو فی صد ٹیکس بڑھانے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ قرارداد حالیہ بجٹ میں پاس ہو چکی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا نے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے جب کہ بلوچستان بھی جلد اس پر عمل شروع کرے گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

چین اور افغانستان کی پاکستان کے راستے تجارت: کیا چیلنجز درپیش ہیں؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ چمن بارڈر پر بھی تقریباً چھ ماہ سے دھرنے کے باعث کاروبار معطل تھا جو کہ اب شروع ہو چکا ہے۔

وائس آف امریکہ نے اس حوالے سے افغان حکام کا مؤقف جاننے کی بھی کوشش کی۔ تاہم اس رپورٹ کے پبلش ہونے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

دوسری جانب پاک افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس کے معاون، ضیا الحق سرحدی کا کہنا ہے کہ اس وقت عملی طور پر تجارتی شارع بند ہے جس کے باعث ہر قسم کا کاروبار ختم ہو کر رہ گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے گورنر، وزیر اعلیٰ اور چیف سیکریٹری سے بات چیت ہوئی ہے لیکن تاحال کوئی تسلی بخش جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

ان کے بقول 23 ستمبر کو افغان وفد نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا لیکن پشاور میں ایک کانفرنس کے دوران افغان قونصل جنرل کے پاکستانی قومی ترانے کے احترام میں نہ کھڑے ہونے کی وجہ سے وہ سفر بھی ملتوی ہو گیا جس کی وجہ سے معاملات جوں کے توں ہیں۔

سرحدی کے بقول چند سال قبل دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم ڈھائی ارب ڈالر کے قریب تھا اور حکام کو اکثر یہ دعوے کرتے سنا گیا کہ وہ جلد اسے پانچ ارب ڈالر تک پہنچانا چاہتے ہیں تاہم اضافے کے بجائے اس میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔

ان کے بقول تجارت ایک آزاد ماحول مانگتی ہے۔ لیکن یہاں کبھی سیکیورٹی، ویزہ، پاسپورٹ تو کبھی ٹیکس کے معاملات درمیان میں لائے جاتے ہیں۔