پاکستان میں ان دنوں اعلٰی عدلیہ کے بعض ججز کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے تو وہیں بھارت میں بھی اعلٰی عدلیہ کے سابق ججز کو اہم سرکاری عہدوں پر تعینات کرنے کا معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
جمعے کو اس حوالے سے چہ موگوئیاں مزید بڑھ گئیں جب بھارتی سپریم کورٹ کے جج جسٹس (ر)عبدالنظیر نے بھارتی ریاست آندھرا پردیش کے گورنر کے طور پر حلف اُٹھا لیا۔
اسی طرح حکمراں جماعت بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھارت کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو 2020 میں پارلیمان کے ایوانِ بالا راجیہ سبھا کا رُکن بھی بنایا تھا۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اس پر ایوان میں خوب ہنگامہ کیا تھا۔
خیال رہے کہ رنجن گوگوئی کی سربراہی میں بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے نومبر 2019 میں بابری مسجد کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندر کی تعمیر جب کہ مسلمانوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔ پانچ رُکنی بینچ میں جسٹس (ر) عبدالنظیر بھی شامل تھے۔
بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس سمیت دیگر جماعتیں اعلٰی عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز کو اُن کے بقول 'نوازنے' کی روش کو عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرناک قرار دے رہی ہیں۔ لیکن حکمراں جماعت اپنے ان اقدامات کو آئین کے مطابق قرار دیتی ہے۔
نو نومبر 2019 کی صبح جب بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا متفقہ فیصلہ سنایا تو صحافتی حلقوں نے اس وقت یہ سوال اُٹھایا تھا کہ آخر کیوں کر کسی ایک جج نے بھی اس معاملے میں اختلافی نوٹ نہیں دیا۔ یہاں تک کہ مسلمان جج جسٹس عبدالنظیر جو اس پانچ رُکنی بینچ کا حصہ تھے۔
جسٹس عبدالنظیر رواں برس چار جنوری کو ریٹائر ہوئے تھے جس کے بعد انہیں رواں ماہ آندھرا پردیش کا گورنر نامزد کر دیا گیا تھا۔ لیکن اس تعیناتی نے کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
بعض حلقے یہ سوال بھی اُٹھا رہے ہیں کہ کیا جسٹس (ر) عبدالنظیر کو بابری مسجد پر ہندو فریق کا ساتھ دینے کا انعام دیا گیا؟ کیوں کہ اس سے بی جے پی کو بہت فائدہ ہوا اور اسے انتخابات میں زبردست کامیابی ملی۔
بھارت میں اپوزیشن جماعت کانگریس نے جسٹس (ر) عبدالنظیر کی بطور گورنر تعیناتی پر بی جے پی کے آنجہانی رہنما ارون جیٹلی کا جملہ دہرایا تھا جس میں ایک موقع پر اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ریٹائرمنٹ کے بعد پرکشش تعیناتی کی خواہش بطور جج فیصلے پر اثر انداز ہوتی ہے۔‘‘
'عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرناک رجحان'
ماہرین یہ سوال بھی اُٹھا رہے ہیں کہ حکومتوں کے ذریعے ججز کو سرکاری عہدے دینا کس حد تک جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کن حالات میں؟ کیا ریٹائرمنٹ کے فوری بعد ججز کو سرکاری عہدے دینا جمہوریت ملک کے لیے برا شگون نہیں ہے؟
بھارت میں ججوں کو پرکشش سرکاری عہدے دینے کی روایات ذرا پرانی ہیں مگر بعض ماہرین کے مطابق گزشتہ کچھ برسوں میں ججوں کی تعیناتی اس تواتر سے سامنے آرہی ہے جس نے معقولیت اور لحاظ کے پردے کو بھی چاک کردیا ہے۔
جسٹس (ر) عبدالنظیر اور جسٹس رنجن گوگوئی کے علاوہ 2014 میں سبک دوش ہونے والے چیف جسٹس آف انڈیا پی ستاشیوم نے کیرالہ کے گورنر کا عہدہ قبول کر لیا تھا جس پر سوالات اُٹھائے گئے تھے۔
چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ 26 اپریل کو ہوئی تھی جس کے محض چار ماہ بعد اُنہوں نے گورنر شپ قبول کر لی تھی۔
یہ روایت نئی ’پرانی‘ ہے
جسٹس ستا شیوم کی گورنر کے عہدے پر حلف برداری بھارت کی تاریخ کا ایسا پہلا واقعہ تھا جب صدر جمہوریہ نے مرکزی حکومت (مودی حکومت) کی سفارشات پر کسی چیف جسٹس کو گورنر کا عہدہ سونپا۔
ستا شیوم کو گورنر بنا نے کے فیصلے کے بعد بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس پر خوب بحث ہوئی تھی۔ اس موضوع پر کالمز اور تبصرے بھی سامنے آئے تھے جس میں یہ سوال اُٹھائے گئے تھے کہ اس تعیناتی سے عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان توازن کو دھچکا لگے گا۔
بعض مبصرین نے یہ سوال بھی اُٹھایا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ججز کو پرکشش عہدے دینے سے ایک بری روایت قائم ہو گی جس سے لامحالہ آزاد عدلیہ کے تشخص کو بھی ٹھیس پہنچے گی۔
SEE ALSO: جب ملائم سنگھ نے بابری مسجد کی جانب بڑھنے والے کار سیوکوں پر گولی چلانے کا حکم دیاچیف جسٹس (ر) گوگوئی کی راجیہ سبھا میں کارکردگی
چیف جسٹس (ر) رنجن گوگوئی کو جب راجیہ سبھا کا رُکن بنایا گیا تو اُنہوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ عدالتی اُمور اور نظام انصاف میں خامیوں کو دُور کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں آواز اُٹھائیں گے۔
تاہم مشہور صحافی رویش کمار نے حال ہی میں اپنے ویڈیو بلاگ میں بتایا کہ "رنجن گوگوئی کی پارلیمنٹ میں حاضری، سوالات کرنے اور بحث میں شامل ہونے کی شرح صفر سے قریب ہے۔"
قانون کمیشن کے سابق سربراہ جسٹس اے پی شاہ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ’’ کسی بھی چیف جسٹس کا عہدہ بہت ہی مقدس ہوتا ہے، لہذٰا اس طرح کی پیش کش قبول کرنے سے شک اور الزامات سامنے آئیں گے۔‘‘
اعتراضات کی وجوہات کیا ہیں؟
جسٹس ستا شیوم کے بارے میں کئی وکلا کا ماننا ہے کہ وہ ایک بہترین جج تھے جنہوں نے نریندر مودی کو ایک بڑی مشکل میں ڈال دیا تھا جب انہوں نے سارے انتخابی امیدواروں کو اپنی بیوی کا نام حلف نامے میں شامل کرنے کو لازمی قرار دیا تھا۔
پھر جب اُنہوں نے جعلی پولیس مقابلے کے ایک کیس میں وزیرِ داخلہ امت شاہ کو کلین چٹ دی تو حزبِ اختلاف نے کہا تھا کہ جسٹس ستا شیوم کا یہ فیصلہ نریندر مودی کو بہت بھایا ہوگا۔
ںاقدین کے مطابق سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی جو مودی حکومت کی سفارشات پر سب کدوشی کے فوری بعد راجیہ سبھا کے رکن بنے۔ انہوں نے بابری مسجد پر سب سے بڑا فیصلہ دیا۔ ایک ایسا فیصلہ جسے نریندر مودی اپنی اور ہندو توا کی جیت قرار دیتے ہیں۔
خود رنجن گوگوئی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ " ایودھیا فیصلہ جب تیار ہوگیا، تو دوسرے ساتھھی ججوں (پانچ رکنی بینچ) کے ساتھ تاج مان سنگھ ہوٹل میں ڈنر کے لیے گئے جہاں انہوں نے چائنیز کھایا اور وائن پی۔"
گوگوئی نے اپنی کتاب میں ڈنر کی تصویر پر ایک کیپشن لکھا ’’ایودھیا فیصلہ کا جشن مناتے ہوئے۔۔ اب ایودھیا جس کا نام فیض آباد تھا میں ایک بڑا رام مندر تیار ہورہا ہے جو عام انتخابات 2024 سے کچھ دن قبل عوام کے لیے کھولا جائے گا۔"
بی جے پی کا موقف کیا رہا ہے؟
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی ہمیشہ سے ججوں کو سیاسی عہدے دینے کے خلاف رہی ہے۔ بی جے پی کے آنجہانی قد آور رہنما ارون جیٹلی نے خود 2012 میں پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ججوں کو پوسٹ ریٹائرمنٹ سرکاری عہدوں سے نوازنے کے خلاف آواز اُٹھائی تھی۔
ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ ایک جج کو سبک دوشی کے بعد کوئی بھی سرکاری عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے۔
بی جے پی کے سابق صدر نتن گڈکری جو موجودہ حکومت میں وزیرِ ٹرانسپورٹ ہیں بھی ماضی میں اسے قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ بی جے پی کا مؤقف بھی کم و بیش یہی تھا۔
لیکن اب حکمراں جماعت اپنے ان اقدامات کا دفاع کر رہی ہے۔ بی جے پی کے رہنما کانگریس کے حوالے سے یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ وہ بھی ماضی میں اعلٰی عدلیہ کے ریٹائر ججز کو نوازتی رہی ہے۔
اس حوالے سے وہ 1952 میں جسٹس سید فضل علی کو اوڈیسا کا گورنر بنانے اور سپریم کورٹ کی جج فاطمہ بی بی کو 1997 میں تمل ناڈو کا گورنر بنانے کی مثالیں دیتی ہے۔
کانگریس کی تنقید
جب جسٹس ستا شیوم گورنر بنائے گئے تب بھی کانگریس نے شدید اعتراض کیا اور اب جب کچھ ہی برسوں کے بعد جسٹس عبد النظیر کو گورنر بنایا گیا تو کانگریس نے پھر سے تنقید کی۔
کانگریس کا یہ مؤقف ہے کہ سابق ججز کے لیے ہماری حکومت کے پاس پہلے سے ہی بہت سے کام ہوتے ہیں، کسی کمیشن کی سربراہی، کسی ہائی پروفائل مقدمے کی انکوائری اور سماجی خدمات کے اداروں میں تعیناتیاں وغیرہ۔ لہذٰا ججز کو سیاسی عہدوں میں لانا جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
بی جے پی سے وابستگی رکھنے والی وکیل کی بطور جج تعیناتی پر سوالات
رواں ماہ سات فروری کو حکمراں جماعت اور ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے سیاسی وابستگی رکھنے والی خاتون وکیل کو مدراس ہائی کورٹ کا جج بنانے پر بھی اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ ان کی نامزدگی کے خلاف دائر درخواست بھی مسترد کر دی گئی تھی۔
بار کونسل آف انڈیا کے مطابق کسی سے سیاسی وابستگی رکھنے والے شخص کی بطور جج تعیناتی غیر آئینی نہیں مگر جج کے عہدے پر بیٹھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ماضی تنازعات سے پاک اور ایمان داری سے عبارت ہو۔
’کچھ غلط نہیں‘
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ناصر جو ججوں کے اختلاف رائے کی تاریخ پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں کا ماننا ہے کہ قانونی طور کسی بھی سابق جج کو کوئی بھی عہدہ دیا جا سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آئین میں کہیں ایسا نہیں لکھا ہے کہ کوئی جج گورنر نہیں بن سکتا اور نہ ہی کوئی قانون حکومت کو ایسا کرنے سے روکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جہاں تک یہ سوالات ہیں کہ انتظامیہ اور عدلیہ میں ساز باز کے خدشات ہیں تو ان خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا مگر انہیں ثابت کرنا بھی مشکل ہے۔
بھارت میں ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار
بھارت میں ججز کی تعیناتی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سینئر ججز پر مشتمل کالجیم (ججوں کا ایک گروپ) کرتا ہے جس میں بظاہر حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر ناصر کہتے ہیں کہ ایک ریٹائرڈ آرمی افسر بھی گورنر بنتا ہے، سرکاری عہدے بھی ملتے ہیں اس لیے یہ بحث وہاں بھی ہونی چاہیے۔ یہ سوالات صرف ججوں پر ہی کیوں کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالتوں کے فیصلے سے حکومتوں کا خوش ہونا فطری بات ہے کیوں کہ عدالتوں میں 70 فی صد مقدمات میں حکومت فریق بنتی ہے، اب سارے فیصلے حکومت کے خلاف تو نہیں جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'ججز نے ایسے فیصلے بھی کیے جس سے حکومت کی سبکی ہوئی'
بی جے پی کے سینیئر رہنما اور معروف وکیل سبرامنیم سوامی کہتے ہیں کہ وہ ججز کو گورنر بنانے کے خلاف نہیں ہیں، کوئی بھی اچھی حکومت چاہے گی کہ ایسے لوگوں کو گورنر بنائے جو قابلِ ہوں اور ججوں سے زیادہ قابل کون ہو گا؟
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جن ججز کو مودی حکومت نے گورنر بنایا، ان سب لوگوں کے فیصلے صرف مودی حکومت کے حق نہیں آئے۔ کئی ایسے فیصلے بھی تھے جس سے حکومت کی سبکی ہوئی۔ لہذٰا یہ کہنا ہے کہ مودی حکومت نے خوش ہونے کے بعد انہیں 'سوغات' سے نوازا تو یہ درست نہیں ہے۔
سبرامنیم سوامی نے اپنی ہی پارٹی کے لیڈر جیٹلی کے اس بیان کو غلط قراردیا جس میں انہوں نے ججوں کو پرکشش سرکاری عہدے نوازنے کے خلاف رائے دی تھی۔
سوامی نے کہا کہ ’ جب جیٹلی نے راجیہ سبھا (ایوان بالا) میں یہ بیان دیا تھا، تو میں وہیں تھا۔ ان کا وہ بیان غلط تھا۔ جیٹلی ایک بھی الیکشن جیتے نہیں، انہیں کیا پتا عوام کیا اور عوام کی حکمرانی کیا؟