بھارت: عوامی مقامات پر نماز پڑھنے پر ہونے والی گرفتاریوں سے نیا تنازع

فائل فوٹو

بھارتی ریاست ہریانہ میں کھلے مقامات پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی پر پیدا ہونے والے تنازعےکے بعد اترپردیش میں بھی اس نوعیت کے تنازعے نے جنم لے لیا ہے۔

لکھنو، آگرہ اور ہری دوار وغیرہ میں گرفتار کیے جانے والوں کے خلاف دو گروہوں میں دشمنی پیدا کرنے، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے، غلط طریقے سے لوگوں کو روکنے اور عوامی فساد کا باعث بننے جیسے الزامات کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔

یہ معاملہ گزشتہ دنوں اس وقت بڑے پیمانے پر ذرائع ابلاغ کی زینت بنا جب 12 جولائی کو لکھنؤ کے ’لولو مال‘ میں نماز پڑھنے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔

’لولو مال‘ کا افتتاح وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 10 جولائی کو کیا تھا۔ ان کے ہمراہ مال کے مالک اور ’لولو گروپ انٹرنیشنل‘ کے چیئرمین ایم اے یوسف علی بھی تھے۔ یوسف علی بھارتی ریاست کیرالہ کے باشندے ہیں جو متحدہ عرب امارات میں بس گئے ہیں۔

ان کی کمپنی ایشیا کی چند بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے اور متعدد ممالک میں اس کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔ لولو مال کو لکھنؤ کا سب سے بڑا مال کہا جا رہا ہے۔

مال میں نماز پڑھنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہندو تنظیموں کی جانب سے وہاں ہندوؤں کی مذہبی کتاب ہنومان چالیسہ پڑھنے کا اعلان کیا گیا۔ کچھ لوگوں نے ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کیا جنہیں پولیس نے گرفتار کر لیا۔


مال میں نماز پڑھنے پر اب تک آٹھ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں دو سگے بھائی بھی ہیں جو کہ ایک مدرسے میں حفظ کے طالبِ علم ہیں۔ ان کی والدہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں مال دیکھنے گئے تھے۔ وہاں انھوں نے کچھ لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا تو وہ بھی اس میں شامل ہو گئے۔

اس کے بعد 21 جولائی کو پریاگ راج ریلوے اسٹیشن پر 10 افراد کے نماز پڑھنے کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ تحقیقات کر رہی ہے اور اس کی بنیاد پر کارروائی کرے گی۔

ایک روز کے بعد 22 جولائی کو ہریدوار کے ایک ہفتہ وار بازار میں نماز پڑھنے کی وجہ سے آٹھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں ایس ڈی ایم کی عدالت نے ان کو وراننگ دے کر ضمانت پر رہا کر دیا۔

اسی طرح 25 جولائی کو میرٹھ کے سہراب گیٹ پر واقع ایک شاپنگ مال میں ایک شخص کے نماز پڑھنے پر پولیس کی جانب سے کارروائی کی جا رہی ہے۔

قبل ازیں جنوری میں بنگلور ریلوے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں کچھ لوگوں کے نماز پڑھنے کے دوران ہندو تنظیموں کے کارکن وہاں گھس گئے اور انہوں نے الزام لگایا کہ یہ لوگ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

اپریل میں آگرہ میں سڑک پر نماز تراویح پڑھنے کی وجہ سے 150 افراد کے خلاف مختلف دفعات کے تحت کارروائی کی گئی۔ 19 مئی کو حیدرآباد کے چار سیاحوں کو تاج محل میں نماز پڑھنے پر گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ تاج محل میں نماز جمعہ کے علاوہ دیگر نمازوں پر پابندی ہے۔

علیگڑھ کے شری وارشنے کالج میں ایک استاد پروفیسر ایس آر خالد کو کیمپس میں نماز پڑھنے پر ایک ماہ کے لیے تعطیل پر بھیج دیا گیا۔ 29 مئی کو نماز پڑھتے ہوئے ان کی تصویر وائرل ہوئی تھی جس پر ہندو تنظیموں نے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔


قبل ازیں 2018 اور 2019 میں یوپی کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اوم پرکاش سنگھ نے اعلان کیا تھا کہ ریاست میں کھلے میں نماز پڑھنا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ یوپی اور ہریانہ کے وزرائے اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور منوہر لال کھٹر نے کئی بار بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ کھلے مقامات پر نماز برداشت نہیں کی جائے گی۔

یوپی پولیس کا کہنا ہے کہ اگر عوامی مقامات پر نماز کی ادائیگی پر شکایت کی جاتی ہے تو پولیس اس کی جانچ کرتی ہے اور اس کے مطابق کارروائی کرتی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاست میں عوامی مقامات پر نماز کی ادائیگی پر پابندی ہے لہٰذا لوگوں کو اس حکم پر عمل کرنا چاہیے۔

متعدد علما نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا نہ ہونے دیں جن میں تصادم ہو اور ان کا ہی نقصان ہو۔

دہلی کی مسجد فتحپوری کے امام مفتی مکرم احمد کا کہنا ہے کہ عوامی مقامات پر نماز پڑھنا غیر قانونی نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص بیچ سڑک پر نماز پڑھتا ہے اور ٹریفک میں خلل پڑتا ہے تو وہ غلط ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ اگر کسی جگہ پر نماز پڑھنے سے نظم و نسق کا مسئلہ پیدا ہوتا ہو تو وہاں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ لیکن اگر کوئی شخص کسی الگ تھلگ جگہ پر نماز پڑھتا ہے اور اس سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے تو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں۔

اُنہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ آج کے دور میں جب کہ نماز کو بھی متنازع بنایا جا رہا ہے عوامی مقامات پر نماز پڑھنے سے بچیں اور اگر قریب میں کوئی مسجد نہیں ہے تو گھر جا کر نماز پڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کسی بھی تنازع میں نہ پڑیں اور اپنے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد کے امام مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ کھلی جگہوں پر نماز نہ پڑھیں۔

جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ کے صدر مفتی سید محمد عبید اللہ اسعدی نے ایک بیان میں کہا کہ اب عوامی مقامات پر نماز پڑھنا آفت مول لینے جیسا ہے۔ ان حالات میں عوامی مقامات پر نماز پڑھنا بہادری نہیں ہے۔ اگر نماز قضا ہو رہی ہے تو گھر جا کر پڑھیں۔

ادھر قانونی ماہرین نے عوامی مقامات پر نماز پڑھنے پر کی جانے والی گرفتاریوں پر سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دستور و قانون میں عوامی مقامات پر عبادت کی اجازت ہے۔

وہ 1994 کے سپریم کورٹ کے اس آرڈر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد ضروری نہیں ہے۔ نماز کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ کھلے مقامات پر بھی۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے پولیس کی جانب سے متعدد دفعات لگائے جانے پر کہا کہ دو گروہوں میں دشمنی پیدا کرنے کی دفعہ کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب عمداً کوئی ایسا عمل کیا جائے جس سے دشمنی پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔ لیکن ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

طلحہ عبد الرحمن ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ کوئی عمل اسی وقت جرم بنتا ہے جب اس سے دوسرے کو نقصان پہنچے۔ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص الگ تھلگ مقام پر نماز پڑھتا ہے تو وہ جرم کیسے ہو گیا۔

بعض مبصرین اسے حکومت کی جانب داری قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب دیگر مذاہب کے لوگوں کو عوامی مقامات پر مذہبی رسوم کی ادائیگی کی اجازت ہے تو پھر ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو کیوں نہیں ہے۔