|
نئی دہلی -- بھارت میں تاریخی مسجدوں پر ہندو تنظیموں کے دعوؤں کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔ گیان واپی مسجد وارانسی، شاہی عیدگاہ متھرا اور کمال مولیٰ مسجد دھار کے تنازعات پرانے ہیں۔ ان تنازعات کی کڑی میں کئی نئے تنازعات بھی جڑ گئے ہیں۔
نیا تنازع ریاست راجستھان کے شہر اجمیر میں واقع ’ڈھائی دن کا جھونپڑا‘ نامی تاریخی مسجد کے سلسلے میں پیدا ہوا جس پر ہندو اور جین سادھوؤں نے مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اس میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔
اس کی تائید ہفتے کو اجمیر کے ڈپٹی میئر نیرج جین نے کی۔ انھوں نے بھی دعویٰ کیا کہ یہاں جین مندر ہے اور تباہ شدہ مجسموں کی باقیات ملے ہیں۔ مسجد میں کل 70 ستون ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مندروں کے ہیں۔
تاریخ کی کتابوں کے مطابق اس مسجد کی تعمیر افغان سپہ سالار محمد غوری کے حکم پر 1192 میں ہوئی تھی۔ غوری نے کسی بلند مقام پر مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور اس کے لیے صرف ڈھائی روز کی مہلت دی تھی۔ بڑی تعداد میں مزدوروں نے دن رات کام کر کے اس مسجد کی تعمیر کی تھی۔
گیان واپی مسجد وارانسی
پراے تنازعات میں گیان واپی مسجد کا تنازع سرِفہرست ہے۔ پانچ ہندو خواتین نے وارانسی کی ایک عدالت میں مسجد کی مغربی دیوار پر گوری شنکر کی مورتی کی پوجا کی اجازت طلب کرنے کے لیے درخواست داخل کی جس پر عدالت نے مسجد کے سروے کا حکم دیا۔
سروے کمشنر نے پوری مسجد، حوض اور تہہ خانوں کاسروے کیا۔ عدالت نے وضو خانے کو سیل کر دیا اور مسجد کے تہہ خانے میں یومیہ پوجا کی اجازت دے دی۔
جب مسجد انتظامیہ کمیٹی نے عبادت گاہ قانون کا حوالہ دیتے ہوئے سروے کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو اس وقت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے یہ کہتے ہوئے سروے کی اجازت دے دی کہ اس سے مسجد کی ہیئت نہیں بدلے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وضو خانے کو سیل کیے جانے اور تہہ خانے میں یومیہ پوجا ہونے سے مسجد کی ہیئت بدل گئی ہے۔
بھوج شالہ کمال مولیٰ مسجد
مدھیہ پردیش کے دھار ضلع میں واقع صوفی بزرگ کمال الدین مالوی کی 15 صدی کی درگاہ پر اور اس کے برابر میں 14 ویں صدی کی مسجد پر بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ تقریباً ایک صدی سے اس پر ہندوؤں کا دعویٰ ہے۔
ان کے مطابق یہ احاطہ باگ دیوی (سرسوتی) کا بھوج شالہ (مندر) ہے۔ 2000 سے ہی ہندو تنظیمیں اس مسجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
ایک ہندو تنظیم ’ہندو فرنٹ فار جسٹس‘ نے 2022 میں ہائی کورٹ کے اندور بینچ میں درخواست داخل کر کے مطالبہ کیا کہ اس میں نماز پر پابندی عائد کی جائے اور صرف ہندوؤں کو پوجا کی اجازت دی جائے۔ ہائی کورٹ نے 2023 میں محکمہ آثار قدیم کو سروے کرنے کا حکم دیا۔ اس حکم کو سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا۔
شاہی عیدگاہ متھرا
اتر پردیش کے متھرا میں واقع شاہی عیدگاہ کے بارے میں ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ 1618 میں راجہ ویر سنگھ بندیلا نے مندر کی تعمیر کی تھی جسے مغل حکمراں اورنگ زیب کے دور حکومت میں 1670 میں منہدم کرکے وہاں مسجد تعمیر کی گئی۔
اصل مقدمے میں شاہی عیدگاہ کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایک دوسری درخواست میں متنازع مقام کو کرشن جنم بھومی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا جسے عدالت نے خارج کر دیا۔
مسلم فریقوں کی جانب سے اس دعوے کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔
سال 1968 میں شری کرشن جنم استھان سیوا سنگھ اور شاہی عیدگاہ کمیٹی کے درمیان ایک سمجھوتہ ہوا تھا جس کے مطابق مندر کی زمین مندر ٹرسٹ کو اور شاہی عیدگاہ کا انتظام عید گاہ کمیٹی کو دیا گیا تھا۔ معاہدے میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ شری کرشن جنم استھان سیوا سنگھ کا شاہی عید گاہ مسجد پر کوئی قانونی دعویٰ نہیں ہے۔
لیکن 2020 میں کچھ ہندوؤں نے عدالت میں درخواست داخل کر کے اس معاہدے کو چیلنج کیا۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ سال دسمبر میں شاہی عیدگاہ مسجد کے احاطے کے سروے کا حکم دیا۔ مسلمانوں کی جانب سے اس حکم کو عبادت گاہ قانون کے حوالے سے چیلنج کیا گیا۔ رواں سال کے 16 جنوری کو سپریم کورٹ نے سروے کے حکم کو معطل کر دیا۔
اجمیر درگاہ
ایک ہندو مذہبی تنظیم ’ہندو سینا‘ نے 28 نومبر کو اجمیر کی سول عدالت میں درخواست دائر کر کے صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے سنکٹ موچن مہادیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا اور درگاہ کا سروے کرانے کا مطالبہ کیا۔
سول کورٹ (ویسٹ) نے درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اجمیر درگاہ کمیٹی، مرکزی حکومت کی اقلیتی امور کی وزارت اور محکمہ آثارِ قدیمہ کو نوٹس جاری کر دیا۔ اس معاملے پر اگلی سماعت 20 دسمبر کو ہو گی۔
جامع مسجد سنبھل
اس سے قبل اتر پردیش کے شہر سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد پر ہری ہر مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے 19 نومبر کو مقامی عدالت میں درخواست دائر کی گئی اور مسجد میں ہندوؤں کے داخلے اور پوجا کی اجازت طلب کی گئی۔
عدالت نے اسی روز سماعت کر کے سروے کا حکم دیا اور اسی روز سروے کر لیا گیا۔ لیکن ایڈووکیٹ کمشنر نے 24 نومبر کو پھر سروے کیا جس پر تشدد پھوٹ پڑا اور پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔
جامع مسجد جونپور
ایک ہندو تنظیم ’سوراج واہنی‘ نے گزشتہ سال اتر پردیش کے شہر جونپور میں واقع اٹالہ مسجد پر دعویٰ کیا۔ اس سلسلے میں مقامی عدالت میں اپیل دائر کی گئی جسے عدالت نے رواں سال کے مئی میں سماعت کے لیے منظور کر لیا۔
عدالت نے اکتوبر میں مسجد کے متولی کو نوٹس جاری کیا اور ایک جنرل نوٹی فکیشن جاری کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص اس معاملے میں فریق بننا چاہے تو بن سکتا ہے۔
پٹیشنرز کا دعویٰ ہے کہ یہ اٹالہ ماتا مندر تھا جسے 1408 میں سلطان ابراہیم نے توڑ کر مسجد کی تعمیر کی۔
سنی سینٹرل وقف بورڈ نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ اٹالہ مسجد میں صدیوں سے نماز ادا کی جا رہی ہے۔ عدالت نے وقف بورڈ کی پٹیشن کو خارج کر دیا۔
جامع مسجد بدایوں
ہندو مہا سبھا نے اتر پردیش کے بدایوں کی جامع مسجد پر دعویٰ کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ نیل کنٹھ مہادیو کا مند رہے۔ ایک مقامی عدالت میں ہفتے کو اس معاملے پر سماعت ہوئی جس کے دوران مسجد انتظامیہ کمیٹی نے اپنا مؤقف رکھا۔ اب اس پر تین دسمبر کو سماعت ہو گی۔
انتظامیہ کمیٹی کے وکیل انور عالم کا کہنا ہے کہ ہندو مہاسبھا کو پٹیشن داخل کرنے کا کوئی حق نہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ مسجد ساڑھے آٹھ سو سال پرانی ہے اور یہاں مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں بدایوں جامع مسجد کے سلسلے میں دائر کیے جانے والے کیس پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ فریقین کو 1991 کے عبادت گاہ قانون کے مطابق اپنا مؤقف رکھنا ہو گا۔
جامع مسجد دہلی
آل انڈیا ہندو مہا سبھا نے سال 2022 میں وزیرِ اعظم مودی اور وزیرِ داخلہ امت شاہ کے نام ایک خط میں یہ دعویٰ کیا کہ دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے مورتیاں دفن ہیں۔ ان کو وہاں سے نکالنے کے لیے کھدائی کرانے کی ضرورت ہے۔
آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے صدر سوامی چکرپانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپنے دعوے کے سلسلے میں ایک کتاب ’معاصر عالمگیری‘ کا حوالہ دیا۔
SEE ALSO:
سنبھل مسجد تنازع پر حکم امتناع؛ 'سپریم کورٹ کو ہی اس معاملے پر حتمی فیصلہ سنا دینا چاہیے تھا'اجمیر درگاہ پر ہندو تنظیم کا دعویٰ، 'ساڑھے سات سو سالہ تاریخ کو نہیں بدلا جا سکتا'بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے باوجود بی جے پی کو ایودھیا میں شکست کیوں ہوئی؟دہلی جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے ہندو مہا سبھا کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ تاریخ کی کتابوں میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یاد رہے کہ تاریخی جامع مسجد کی تعمیر مغل حکمراں شاہ جہاں کے دور حکومت میں 1644 سے 1656 کے درمیان ہوئی تھی۔
تاج محل
حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے ایودھیا کے میڈیا سیل کے سربراہ رجنیش سنگھ نے 2022 میں سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر کے 17 ویں صدی میں تعمیر کیے جانے والے مقبرے تاج محل کی حقیقی تاریخ جاننے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی اپیل کی تھی۔
ان کے مطابق اس کا کوئی تاریخ ثبوت نہیں ہے کہ تاج محل کو مغل حکمراں شاہ جہاں نے تعمیر کرایا تھا۔ ان کی اس درخواست کو عدالت نے خارج کر دیا تھا۔
ہندو تنظیمیں 1989 سے ہی محبت کی اس نشانی پر دعویٰ کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق اس کا اصل نام ’تیجو مہالیہ‘ ہے۔ ان کے مطابق شاہ جہاں نے 17 ویں صدی میں تیجو مہالیہ کو تاج محل میں تبدیل کر دیا۔ محکمہ آثارِ قدیمہ نے تاج محل کے تیجو مہالیہ ہونے کی تردید کی ہے۔
قطب مینار
سال 2022 میں دہلی ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کر کے دعویٰ کیا گیا کہ جنوبی دہلی کے مہرولی علاقے میں واقع ملک کا سب سے بلند مینار قطب مینار قطب الدین ایبک کا تعمیر کردہ نہیں بلکہ اسے راجہ وکرما دتیہ نے سورج کی سمت کا پتا لگانے کے لیے تعمیر کرایا تھا۔
یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ قطب مینار کے احاطے میں قائم مسجد قوت الاسلام کی تعمیر مندر کے احاطے میں ہوئی ہے۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق 27 ہندو اور جین مندروں کو توڑ کر مسجد قوت الاسلام کی تعمیر کی گئی۔ عدالت سے مندروں کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
تاریخ کی کتابوں کے مطابق قطب مینار کی تعمیر 13 ویں صدی میں قطب الدین ایبک نے شروع کی تھی اور اسے ان کے جا نشین التمش نے مکمل کیا تھا۔
آل انڈیا ہندو مہا سبھا کا مؤقف
آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے صدر سوامی چکرپانی مہاراج نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مغل حکمرانوں نے مندورں کو توڑ کر ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی تھی۔ لہٰذا جن مندروں کو توڑا گیا انھیں واپس لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی لڑائی نہیں ہے اور ہم تشدد کی بنیاد پر نہیں بلکہ باہمی مفاہمت کی بنیاد پر مندروں کی واپسی چاہتے ہیں۔
’سپریم کورٹ کو جنرل آرڈر پاس کرکے اس تنازع کو روکنا چاہیے‘
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کو ایک جنرل آرڈر پاس کر کے ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔
انھوں نے اس صورتِ حال کے لیے ڈی وائی چندر چوڑ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ انھوں نے گیان واپی مسجد کے سروے کی جو اجازت دی تھی وہ مثال بن گئی اور اب اس کی آڑ میں ذیلی عدالتیں مسجدوں کے سروے کا حکم صادر کر رہی ہیں۔
عبادت گاہ قانون 1991
یاد رہے کہ 1991 میں اس وقت کی کانگریس حکومت نے پارلیمان سے ایک قانون منظور کرایا تھا جسے عبادت گاہ قانون 1991 کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد تاریخی عمارتوں پر دعوؤں کا سلسلہ روکنا تھا۔
اس قانون کی دفعہ چار کی شق ایک میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی وہ اسی شکل میں رہے گی۔
شق دو میں کہا گیا ہے کہ اگر ایسی کسی عبادت گاہ کے سلسلے میں کسی عدالت میں کوئی تنازع ہے تو وہ کالعدم ہو گیا اور آگے بھی کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ اس قانون کے دائرے سے بابری مسجد کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔
دفعہ چھ کی شق ایک میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی عبادت گاہ کا کیرکٹر تبدیل کیے جانے پر تین سال کی سزا ہو گی جسے بڑھایا بھی جا سکے گا۔ اس کے علاوہ جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔