پنجاب اسمبلی سے چند روز قبل منظور ہونے والے 'تحفظِ بنیادِ اسلام' پر مختلف مذہبی حلقوں کی جانب سے اعتراضات اور حمایت کا سلسلہ جاری ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی سے ان دنوں مختلف مذہبی جماعتوں کے نمائندے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ کوئی اُن کی زیرِ صدارت اجلاس میں بل کی منظوری کی تعریف کر رہا ہے تو کسی جماعت کو اِس بل کے مندرجات پر اعتراضات ہیں۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی سے پیر کو شیعہ علما کونسل کے سیکریٹری جنرل علامہ عارف واحدی کی قیادت میں ایک وفد نے بھی ملاقات کی اور بل سے متعلق اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
پنجاب اسمبلی نے گزشتہ ہفتے 'تحفظِ بنیادِ اسلام' کے عنوان سے ایک مسودۂ قانون کثرتِ رائے سے منظور کیا تھا جس میں دینِ اسلام، پیغمبرِ اسلام اور دیگر اہم مذہبی شخصیات کی عزت و ناموس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
بل کی منظوری کے بعد نہ صرف پاکستان میں اس پر بحث جاری ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی بعض حلقوں کی جانب سے اس بِل کی منظوری پر تنقید کی جا رہی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی نے شیعہ علما کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اُن کے اعتراضات دُور کیے جائیں گے۔
لیکن کچھ مذہبی جماعتیں اس بِل کی بھرپور حمایت بھی کر رہی ہیں۔ چوہدری پرویز الہٰی سے پیر کو ملاقات کرنے والوں میں جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے چیف آرگنائزر علامہ ابتسام الہٰی ظہیر بھی شامل تھے جنہوں نے بل کی منظوری پر چوہدری پرویز الہٰی کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے اس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
شیعہ علما کے تحفظات
چیئرمین عزاداری کونسل پاکستان کے صدر پروفیسر علامہ ذوالفقار حیدر کے مطابق اِس بل میں بہت سی باتوں پر اُنہیں اعتراضات ہیں۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ چوہدری پرویز الہٰی نے شیعہ علما کے اعتراضات دُور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ جہاں بھی پیغمبرِ اسلام کا ذکر آئے گا وہاں ان کے نام کے ساتھ خاتم النبین (آخری نبی) اور صلی اللہ علیہ و سلم لکھنا لازمی ہو گا۔ ایکٹ کے مطابق پیغمبرِ اسلام، اہل بیت، خلفائے راشدین اور صحابہ کے بارے میں توہین آمیز کلمات قابلِ گرفت ہوں گے۔
شیعہ مذہبی جماعتوں کو یہ اعتراض ہے کہ بل میں اہلِ بیت یعنی پیغمبرِ اسلام کے خاندان کے افراد کے نام کے ساتھ علیہ اسلام کے بجائے رضی اللہ تعالیٰ لکھنے کی منظوری دی گئی ہے جو اُن کے عقیدے سے متصادم ہے۔
علامہ ذوالفقار حیدر کے بقول کتابوں کی اشاعت سے متعلق تجاویز پر بھی اُنہیں اعتراضات ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کے اعتراضات
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' نے تحفظ بنیاد السلام بل پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون تعصب کو ہوا دے گا۔
وائس آف آمریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایچ آر سی پی کے سیکریٹری جنرل حارث خلیق کا کہنا تھا کہ اِس بل کا بڑا حصہ ایسی پابندیوں کی بات کرتا ہے جن کا تعلق مذہب سے نہیں ہے۔
حارث خلیق نے کہا کہ اِس بل کا پاس ہونا ایک پریشان کن صورتِ حال ہے کیوں کہ اِس بل کی ضرورت نہیں تھی۔
اُن کے بقول پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی اور قانونی ادارہ ہے جس سے اس بِل کے سلسلے میں کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
حارث خلیق کا کہنا تھا کہ پنجاب کی سیاست میں مذہبی ووٹ بینک کا بڑا عمل دخل ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اُنہیں راضی رکھنے کے لیے اس نوعیت کی قانون سازی کرتی ہیں۔
ان کے بقول اس بل میں موجود کچھ شقیں فرقہ واریت کو ہوا دے سکتی ہیں اور اس کی وجہ سے تدریسی نظام میں خلل پڑے گا، کیوں کہ بہت سی ایسی کتب ہیں جو باہر سے منگوائی جاتی ہیں اور اگر ان پر پابندی لگی تو اس سے لامحالہ طلبہ کا نقصان ہو گا۔
حارث خلیق نے کہا کہ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز (ڈی جی پی آر) کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ کتابوں کی جانچ پڑتال کے لیے کارروائی کر سکیں گے جو مناسب فیصلہ نہیں لگتا۔
اُن کے بقول ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ق) اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے اس نوعیت کی قانون سازی کرا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی نے خود دلچسپی لے کر یہ قانون سازی کرائی۔
حارث خلیق کے بقول گزشتہ انتخابات میں مذہبی جماعت 'تحریکِ لبیک پاکستان' کو زیادہ نشستیں تو نہیں ملی تھیں، لیکن ہر حلقے سے اُنہوں نے کئی کئی ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ لہذٰا مسلم لیگ (ق) 2023 کے انتخابات کو ذہن میں رکھ کر ایسی قانون سازی کرا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے والے مسلم لیگ (ق) کے رکن حافظ عمار یاسر اور وزیرِ قانون پنجاب راجہ بشارت سے ان مؤقف جاننے کی کوشش کی، لیکن دونوں دستیاب نہیں تھے۔
البتہ چوہدری پرویز الہٰی کا یہ موقف رہا ہے کہ یہ بل صوبے میں بھائی چارے اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کا باعث بنے گا۔
بِل کی مخالفت میں خود حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے اندر سے بھی کئی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ وزیرِ اعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری نے بھی پیر کو بِل کے مندرجات پر اپنے اعتراضات سے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کو آگاہ کیا تھا۔
خیال رہے کہ پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والا کوئی بھی بِل دستخط کے لیے گورنر پنجاب کو بھجوایا جاتا ہے۔ اگر وہ اس پر دستخط کر دیں تو ہی وہ قانون بنتا ہے۔
وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین نے بھی ٹوئٹر پر اس بِل کی مخالفت کی ہے۔ اپنے ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے یہ قانون نہیں پڑھا لیکن اس وقت پارلیمان خصوصاً پنجاب میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ ہر رکن روزانہ ایک نئی تحریک لے کر آتا ہے اور بتایا جاتا ہے اگر یہ نہ ہوا تو اسلام خطرے میں ہے۔
ان کے بقول یہ خطرناک رویہ ہے اور اس سے ہم فرقہ ورانہ اور مذہبی شدت پسندی کے گرداب میں دھنستے جائیں گے۔
تحفظِ بنیادِ اسلام بل میں کیا ہے؟
پنجاب اسمبلی سے منظور بِل کے مطابق پیغمبرِ اسلام، اہلِ بیت اور صحابہ کے علاوہ انبیا، فرشتوں، تمام الہامی کتب اور دینِ اسلام کے بارے میں متنازع اور توہین آمیز الفاظ بھی قابلِ دست اندازیٔ پولیس ہوں گے۔
پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے بل کے مطابق توہینِ مذہب سے متعلق کسی بھی قسم کی خلاف ورزی پر پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کے علاوہ تعزیراتِ پاکستان کی مروجہ دفعات کے تحت بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکے گی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ مختلف کتب میں مذاہب خصوصاً اسلام کے بارے میں نفرت انگیز مواد کی اشاعت روکی جائے گی۔
بِل کے حامیوں کے بقول اس کی منظوری کے بعد توہین آمیز یا گستاخانہ مواد کا مکمل طور پر تدارک ممکن ہو سکے گا اور ایسی کتب یا کوئی مواد جس میں پیغمبرِ اسلام، صحابہ، خلفائے راشدین، اہلِ بیت اور دیگر مقدس شخصیات کی توہین کا پہلو ہو ان کی اشاعت یا تقسیم پر پابندی ہو گی۔