اسلام ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ چین میں پھنسے پاکستانی طلبہ کے حوالے سے مناسب فیصلہ کرے۔ طلبہ کے عزیز و اقارب نے اپنی درخواست میں طلبہ کو واپس بلا کر قرنطینہ میں رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعے کو چین میں پھنسے پاکستانیوں اور طلبہ کے لواحقین کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ والدین کا درد اور دکھ ہم سمجھ رہے ہیں۔
لیکن یہ ایک بڑا معاملہ ہے، عدالت تحریری حکم میں واضح کر چکی ہے کہ اس حوالے سے کوئی حکم نہیں دے سکتے۔
دوران سماعت چین میں موجود طلبہ کے والدین نے کمرہ عدالت میں رونا شروع کردیا اور کہا کہ ایران سے آنے والے ہزاروں زائرین کے لیے کوئٹہ میں الگ جگہ بنا دی گئی۔ ہمارے بچے بھی اسی طرح یہاں لا کر کسی بھی جگہ رکھ لیں۔
لواحقین نے شکوہ کیا کہ ہمارا کوئی احساس کرنے والا نہیں،حکومت کچھ نہیں کر رہی۔ تمام ملکوں نے اپنے بچے نکال لیے لیکن ہمارے بچوں کو واپس نہیں لا رہے۔
لواحقین نے سوال اُٹھایا کہ ایران سے آنے والے زائرین کو کوئٹہ میں 15 دن رکھا جاتا ہے، کیا ہمارے بچوں کو چین سے واپس لا کر 15 دن تک علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا؟
والدین کے وکیل نے کہا کہ طلبہ کے والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ماہ رمضان سے پہلے واپس آ جائیں۔ کمرہ عدالت میں موجود وزارتِ خارجہ کے نمائندہ نے کہا کہ آئندہ منگل کو کابینہ کے اجلاس میں اس بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
SEE ALSO: ’کرونا وائرس متاثرین کی پاکستان واپسی سے وبا کے پھیلنے کا خدشہ ہے‘چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا بچوں کو واپس لانے سے متعلق کوئی تاریخ دی جا سکتی ہے؟ ڈی جی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ سمری کابینہ کو بھیجی جا چکی کابینہ کے اگلے اجلاس میں اس سے متعلق فیصلہ ہو جائے گا۔
والدین نے کہا کہ عدالت اپنے فیصلے میں لکھ دے کہ وفاقی کابینہ منگل کے اجلاس میں فیصلہ کرے۔ ہمیں حکومت پر اعتماد نہیں ہے۔ اسی حکومت کے خلاف ریلیف لینے عدالت آئے ہیں۔ لہذٰا ایران اور چین سے آنے والے پاکستانیوں سے متعلق ایک ہی پیمانہ مقرر کرنے کی ہدایت کی جائے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ والدین کا استدلال ہے کہ ایران سے زائرین واپس آرہے ہیں چین سے کیوں نہیں۔ یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے لیکن یہ عدالت بچوں کے والدین کو مطمئن کرنے کے لیے سن رہی ہے۔ عدالت ایسا حکم نہیں دے سکتی جس پر عمل نہ ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے پہلی بار سنا ہے کہ خانہ کعبہ کو بند کیا گیا ہے، صورت حال گھمبیر ہے اسی لیے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چین میں موجود پاکستانی طلبہ کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 13 مارچ تک ملتوی کر دی۔
چین میں کتنے پاکستانی طلبہ ہیں؟
وفاقی حکومت کے مطابق اس وقت چین کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلبہ کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے۔ اب تک چین میں چھ پاکستانی طلبہ میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔
چینی حکومت کی طرف سے پاکستانی طلبہ کے حوالے سے اعلان کیا گیا تھا کہ انہیں چینی شہریوں کی طرح تمام تر سہولیات مہیا کی جارہی ہیں۔ پاکستانی سفارت خانے نے بھی طلبہ اور دیگر پاکستانی شہریوں کو سفارت خانے کے ذریعے رجسٹر ہونے کا کہنا تھا۔ جس کے بعد ان کی مالی معاونت بھی کی گئی تھی۔
البتہ حکومت نے وائرس پھیلنے کے خدشے کے پیشِ نظر ان طلبہ کو واپس نہ لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ بچوں کے والدین اسلام آباد میں مختلف مقامات پر احتجاج بھی کر چکے ہیں۔ البتہ اب عدالت نے وفاقی کابینہ کو حکم دیا ہے کہ وہ اس ضمن میں فیصلہ کرے۔
کمرہ عدالت کے باہر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے چین میں موجود طالبہ رمل کے والد سجاد نے بتایا کہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ چین اور ایران کے حوالے سے ایک ہی پالیسی رکھی جائے۔ اُن کے بقول پاکستان میں اب تک جو کیسز سامنے آئے ہیں وہ ایران سے آنے والے افراد کی وجہ سے آئے ہیں، چین زیادہ محفوظ ہے۔ جو تمام افراد کو 14 دن قرنطینہ میں رکھ کر بھجواتا ہے۔
سجاد کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑے تو چین سے آنے والے طلبہ کو بھی 14 دن کے لیے قرنطینہ میں رکھ لیں، لیکن چین میں رکھ کر اُنہیں مزید خطرے میں نہ ڈالا جائے۔