کرونا بحران میں پاکستانی بزنس کمیونٹی کا سب سے بڑا کردار یہ ہے کہ وہ اپنے ملازموں کو بے روزگار نہیں کر رہی اور بغیر کام کرائے تنخواہیں ان کے گھروں تک پہنچا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں سیالکوٹ میں قائم سپورٹس کا سامان بنانے والی ایک کمپنی 'ٹیلن اسپورٹس' کے سی ای او، قیصر بریار نے بتایا کہ کرونا بحران کی وجہ سے ان کی فیکٹری میں کام بالکل بند ہو چکا ہے۔ لیکن، وہ اپنے ملازموں اور کارکنوں کو، جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، تنخواہیں اور اجرتیں دے رہے ہیں اور اگلے کم از کم چند ماہ تک انہیں پوری تنخواہیں دیتے رہیں گے۔
انھوں نے کہا کہ ''اس کے بعد بھی اگر بحران ختم نہ ہوا تو وہ انہیں نصف تنخواہ دینا جاری رکھیں گے، تاکہ وہ اپنی اور اپنے گھرانوں کی روز مرہ کی ضروریات پوری کرتے رہیں''۔
قیصر بریار نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے ڈیلی ویجز پر کام کرنے والوں کے لیے ایک کرونا فنڈ بھی قائم کیا ہے، جس میں صرف گزشتہ چند روز میں ایک کروڑ روپے جمع ہو چکے ہیں جو مقامی صنعت کاروں اور تاجروں نے فراہم کیے ہیں۔
انھیں توقع ہے کہ اس فنڈ میں کم از کم دس کروڑ روپے اکٹھے ہو جائیں گے۔
قیصر بریار نے کہا کہ وہ اس فنڈ سے روز مرہ کی ضروری اشیا اور راشن کے پیکٹس ان مزدوروں اور کارکنوں کے گھروں تک پہنچا رہے ہیں، جس کے لیے انہوں نے مقامی فلاحی تنظیموں کو اپنے ساتھ شامل کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ گزشتہ چند دنوں میں ایک ہزار لوگوں کو یہ پیکٹس تقسیم کیے جا چکے ہیں جب کہ اب وہ روزانہ پانچ سو پیکیٹ تقسیم کریں گے۔ اس سلسلے میں ایک ہاٹ لائن قائم کر دی گئی ہے، جہاں لوگ امداد کے لیے فون کرتے ہیں، جس کے بعد وہ سامان ان کے گھر تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے پیٹرن، سابق صدر اور پاکستان کیمیکل مینو فیکچررز ایسو سی ایشن کراچی کے سابق چیئرمین، زبیر طفیل نے کہا کہ موجودہ حالات میں بزنس کمیونٹی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کم از کم تین چار ماہ تک اگر لاک ڈاؤن جاری رہتا ہے تو اپنے ملازمین کو تنخواہیں دیتی رہے اور اچھی بات یہ ہے کہ وہ اپنی یہ ذمہ داری نبھا رہی ہے۔
تاہم، انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کا مکمل لاک ڈاؤن نہ کرے کیوں کہ پاکستان کے پاس کوئی ایسا سوشل سسٹم نہیں ہے کہ لوگ غیر محدود یا کسی کم سے کم معینہ مدت تک بغیر کام کیے گھر بیٹھ کر اپنے گھر چلاتے رہیں۔
اس لئے حکومت کو چاہیے کہ کچھ صنعتوں، مثلاً خوراک، آٹا، فارمیسی، صابن، ہینڈ واش، سینی ٹائزر جیسی انڈسٹریز کو ضروری قرار دے اور ملازمین کی کم سے کم تعداد کے ساتھ اور کرونا وائرس سے بچاؤ کے حفاظتی اقدامات کے ساتھ اپنی فیکٹریوں میں کام جاری رکھنے کی اجازت دے۔
سیالکوٹ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے چیف پیٹرن، سابق صدر اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے رکن ڈاکٹر نعمان ادریس بٹ نے، جو ہیلتھ کا سامان بنانے والی ایک فیکٹری کے مالک ہیں، بتایا کہ ان کی فیکٹری میں زیادہ تر کارکنوں کے بینک اکاؤنٹ نہیں ہیں۔ ایسے میں وہ ان کی تنخواہیں گھروں تک نقدی کی شکل میں پہنچانے کا بندوبست کر رہے ہیں، جب کہ چیمبر کے ایک مقامی پرائیوٹ ہسپتال اور سیالکوٹ میڈیکل کالج کے ساتھ مل کر اس کے ہوسٹل میں ایک سو کمروں کا ایک قرنطینہ مرکز قائم کر چکا ہے، جس میں دس وینٹی لیٹرز پورا عملہ اور ڈاکٹرز موجود ہیں۔
راولپنڈی چیمبرز آف کامرس کے سابق صدر سہیل الطاف نے بتایا کہ اس وقت چیمبر اس چیز کو یقینی بنانے کی کوشش میں مصروف ہے کہ بزنس کمیونٹی اس بحران کے دوران گھروں میں بیٹھے اپنے کارکنوں کو تنخواہیں دیتی رہے اور اب تک یہ سلسلہ بخوبی جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے کارکنوں کی مدد کے لیے، جو بے روزگار ہو گئے ہیں، دوسرے چیمبرز کی طرح ان کے چیمبر نے ایک کرونا فنڈ تشکیل دیا ہے اور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے ساتھ مل کر ماسکس، خوراک اور راشن ضرورت مندوں تک فری تقسیم کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بحران کے دوران جب کہ بیشتر صنعتیں، کاروبار، شاپنگ سینٹرز اور کام بند ہیں، پاکستان کی بزنس کمیونٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنے ملازمین کو بے روزگاری سے بچانا اور ان کی تنخواہیں ادا کرتے رہنا ہے اور پاکستانی بزنس کمیونٹی اپنی اس مشکل ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے ملازمین کو بے روز گار نہیں کر رہی اور ان کی تنخواہوں کی ادائیگی جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہی اس بحران میں بزنس کمیونٹی کا سب سے بڑا کنٹریبیوشن ہے۔