سعودی عرب میں غیر معینہ لاک ڈاؤن، غیرملکی کارکنوں کی مشکلات میں اضافہ

  • قمر عباس جعفری

ریاض میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے سڑکیں ویران اور کاروباری ادارے بند پڑے ہیں۔

سعودی عرب نے حالیہ دنوں میں کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر دارالحکومت سمیت دوسرے بڑے شہروں میں کرفیو میں جو اپریل کے وسط تک ختم ہونا تھا اب غیر معینہ مدت تک کے لئے توسیع کر دی ہے۔

نامہ نگار دال جی ایویسک نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کرونا سے متاثر ہونے والوں میں سعودی شاہی خاندان کے بعض افراد بھی شامل ہیں۔ اور مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں اس مرض میں مبتلا لوگوں کی تعداد 6 خلیجی عرب ریاستوں میں سب سے زیادہ ہے۔

دریں اثنا اخبار نیویارک ٹائمز نے اطلاع دی ہے کہ اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے بقول بادشاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان یا ایم بی ایس اس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر تنہائی میں چلے گئے ہیں۔ جب کہ ریاض کے گورنر شہزادہ فیصل بن بندر بن عبدالعزیز، اس بیماری کا شکار ہو کر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ہیں۔

دریں اثنا سعودی عرب میں رہنے والے، خاص طور پر پاکستانی مشکلات کا شکار ہیں۔ جدہ میں مقیم پاکستانی صحافی امیر محمد خان نے بتایا کہ انتہائی ضروری سروسز کے علاوہ سب کچھ بند ہے اور جو پاکستانی وہاں کام کرتے ہیں ان کے مسائل شدید ہیں۔

ہر چند کہ حکومت نے ان کے اقاموں کی فیس وغیرہ معاف کر دی ہے۔ لیکن چھوٹے کاروباری مالکان کو یہ حق مل گیا ہے کہ وہ چاہیں تو اپنے ملازمین کی اجرتوں میں کمی کر دیں اور چونکہ کاروبار بند ہیں اس لئے وہ ملازمین کو فارغ بھی کر سکتے ہیں۔

امیر محمد خان نے بتایا کہ سب سے زیادہ مشکل ریاض۔ جدہ اور دمام میں پاکستانی اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کو ہو رہی ہے، کیونکہ ان اسکولوں نے بندش کے دوران فیسیں معاف کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ کیونکہ ان کے بقول ان کے پاس ایسا کوئی فنڈ وغیرہ نہیں ہے جس کے تحت وہ یہ رعایت دے سکیں اور والدین کے سروں پر بیروزگاری یا آمدن میں کمی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اور ان کے لئے یہ فیسیں ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔

امیر محمد خان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی حکومت نے ان لوگوں کے لئے جو اپنے عزیزوں سے ملنے آئے ہوئے تھے، ان کے ویزوں اور سعودی عرب میں کام کرنے والے ان پاکستانیوں کے اقاموں میں جو پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں، اس وقت تک کے لئے توسیع کر دی ہے، جب تک پروازیں بحال نہیں ہو جاتیں۔

ادھر یمن کی حکومت کی حمایت کرنے والے اتحاد نے، جس کی قیادت سعودی عرب کر رہا ہے یمن میں دو ہفتے کے لئے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے جس پر 9 اپریل سے عمل درآمد ہو رہا ہے۔

لیکن ایران کے حمایت یافتہ ہوتی باغیوں نے سعودی جنگ بندی کو بین الاقوامی سطح پر اپنی شہرت بہتر بنانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ اور انہوں نے اتحاد پر اس روز بھی متعدد حملے کرنے کا الزام عائد کیا ہے جس دن جنگ بندی کا اعلان ہوا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یمن میں پہلے ہی انسانی بنیادوں پر بحران کا سلسلہ جاری ہے اور وہاں کی آبادی کے لئے سنگین خطرات ہیں، جہاں اب کرونا وائرس بھی پہنچنا شروع ہو گیا ہے اور دنیا کو اس پر توجہ دینی چاہئیے۔