کیا امریکہ میں کرونا وائرس کی بر وقت روک تھام ممکن تھی؟

  • مدثرہ منظر

New York - Manhattan

کسی بھی صورتِحال سے نمٹنے کیلئے بر وقت ضروری اقدامات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ کرونا وائرس کی وبا سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے متاثر ہونے اور موت کا شکار ہونے کے بعد اب اس بارے میں بھی بات ہو رہی ہے کہ آیا اس وبا سے بچنے کے اقدامات بر وقت کئے گئے تھے؟

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ میں کیا کرونا وائرس کی بروقت روک تھام ممکن تھی؟

اخبار 'دی نیو یارک ٹائمز' نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر امریکہ میں سوشل ڈسٹینسنگ یا سماجی فاصلے کا آغاز اس سے ایک ہفتہ پہلے کر دیا جاتا جب مارچ کے مہینے کے وسط میں امریکی ریاستوں میں لوگوں کو گھروں میں بند ہو کر رہنے کیلئے کہا گیا تو چھتیس ہزار جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔

امریکہ میں صحتِ عامہ کے عہدیدار فروری کے اوائل میں ہی کرونا وائرس سے خبردار کر رہے تھے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ سان فرانسسکو میں بڑی کمپنیوں کے مالکان اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت کر رہے تھے۔ ساتھ ہی ریاست واشنگٹن میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ باقی دنیا کی بات کیجئے تو یہی وقت تھا جب جنوبی کوریا، ویت نام اور دیگر ممالک کرونا وائرس سے بچاؤ کیلئے سخت اقدامات کر رہے تھے۔

امریکہ میں عام لوگ صدر ٹرمپ کی جانب سے کسی اعلان کے منتظر تھے اور جب 26 فروری کو انہوں نے بات کی تو یہ کہا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ پھر مارچ میں ان کا کہنا تھا کہ لوگ پریشان نہ ہوں یہ جلد چلا جائے گا۔

امریکی ریاستوں کے بعض عہدیدار جیسا کہ نیو یارک کے مئیر بل دی بلاسیو بھی ایسی ہی باتیں کر رہے تھے کہ لوگ شہر میں پھریں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مگر حال ہی میں کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ ایسی ہی ہدایات کی وجہ سےنیویارک میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور مرنے والوں کی تعداد نے پورے امریکہ میں تشویش پیدا کردی۔

طبّی ماہرین نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگر ایئرپورٹس پہلے بند کر دئے جاتے، لاک ڈاؤن کا اعلان بہت پہلے کیا جاتا تو اتنی بڑی تعداد میں لوگ اس وائرس کا شکار نہ ہوتے۔

بعد کے ایک جائزے سے اندازہ ہوا کہ نیو یارک میں کرونا وائرس زیادہ تر یورپ سے آنے والوں کے ذریعے پھیلا کیونکہ یورپ کی فلائٹس کو بہت دیر بعد نیو یارک آنے سے روکا گیا۔ صرف ایک ہفتے کی تاخیر ہزاروں جانیں لے گئی۔ وہی ایک ہفتہ جس میں طبّی عملے کیلئے خود کو محفوظ بنانا ممکن نہ رہا۔

گردوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر سیّار خان نیو یارک میں یونیورسٹی ہسپتال نارتھ ویل ہیلتھ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انہیں کرونا وائرس ان کے مریضوں سے ملا۔ اور وہ دو ہفتے تک قرنطینہ میں رہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے دو بھائی اور ایک بہن بھی ڈاکٹر ہیں اور سب کو کووڈ نائنٹین کا انفیکشن ہوا ہے۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کووڈ نائینٹین سے بچاؤ کا سب سے مؤثر طریقہ سوشل ڈسٹینسنگ ہے اور اگر یہ ابتدا ہی میں اختیار کر لیا جاتا تو شاید وہ خود بھی اس وائرس میں مبتلا نہ ہوتے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ ایک ڈاکٹر ہیں اور مریضوں کا علاج ان کا فریضہ ہے۔ اس لئے وہ یہ جانتے ہوئے بھی اپنے فرائض انجام دیتے رہے کہ ان کے مریضوں میں سے کوئی بھی انہیں اس وائرس میں مبتلا کر سکتا ہے۔

امریکہ میں اس وقت تک پندرہ لاکھ سے زیادہ لوگ کرونا وائرس سے متاثر ہیں اور ترانوے ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ بر وقت اقدامات نہ کرنے کا الزام خواہ کسی کو بھی دیا جائے بات اب بعد از وقت ہے۔

البتہ، یہ ضرور ہے کہ جس کے پاس اختیار ہو ذمے داری بھی اسی کی ہوا کرتی ہے۔ ماہرین یہی کہتے ہیں کہ اگر صرف ایک ہفتہ پہلے لوگوں کو گھروں میں بند ہو کر رہنے کیلئے کہہ دیا جاتا تو ہزاروں جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔