کرونا وائرس کے پھیلتے ہی لوگوں میں یہ بے چینی پائی جانے لگی کہ اس وائرس کے خلاف کوئی دوا، کوئی ویکسین کب آئے گی؟ مگر دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے گئے اور کوئی دوا، کوئی ویکسین سامنے نہ آسکی۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم، دنیا بھر میں سائنسدان مسلسل اس کوشش میں لگے ہیں کہ وہ اس وائرس کے خلاف جلد کوئی ویکسین تیار کر سکیں۔
امریکہ میں بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیاں اس پر بھرپور انداز میں کام کر رہی ہیں، مگر کہا یہی جا رہا ہے کہ کوئی ویکسین اس سال کے آخر تک شاید ہی مارکیٹ میں آسکے
بلکہ ایک اندازہ تو یہ بھی ہے کہ کسی ویکسین کے مارکیٹ میں لائے جانے سے پہلے اتنے مراحل ہیں اور اتنا سرمایہ درکار ہے کہ شاید اس میں ایک عشرہ لگے۔
اسی دوران امریکہ میں ایف ڈی اے یا فوڈ اینڈ ڈرگ ایجنسی نےایک ایسی دوا کی منظوری دی ہے جو اینٹی وائرل ہے اور اب کووڈ 19 کے مریضوں کو دی جا رہی ہے۔
ریمڈیسیوئیر نامی یہ دوا ہسپتال میں داخل مریضوں کو دی جا رہی ہے۔ اسی کے ساتھ محتاط انداز میں ملیریا سے بچاؤ کی دوا ہائیڈروکسی کلورو کوئین بھی استعمال کی جا رہی ہے۔
یہ دوائیں کس حد تک موثر ہیں اس بارے میں فلوریڈا میں متعدی امراض کے ماہر، امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم 'اپنا' کی کووڈ 19 ٹاسک فورس کے سربراہ اور یو سی ایف کالج آف میڈیسن اورلینڈو میں اسسٹنٹ پروفیسر آف کلینیکل میڈیسن، ڈاکٹر ساجد چوہدری نے بتایا کہ انہوں نے اپنے مریضوں میں ہائیڈراکسی کلورو کوئین استعمال کر کے دیکھی ہے، مگر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آیا۔
ریمڈیسیوئیر کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ابتدا میں یہ دوا ایبولا وائرس کے دنوں میں آئی تھی اور اب کرونا وائرس کے مریضوں میں اس کے استعمال سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ مریض کے ٹھیک ہونے کا عرصہ کم ہو گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کووڈ 19 ایسا مرض ہے جس سے انسان کا جسم خود ہی نجات حاصل کرتا ہے۔ جسم میں اینٹی باڈیز پیدا ہوتی ہیں اور مریض اگر عام حالات میں گیارہ دن میں ٹھیک ہوتا ہو تو ریمڈیسیوئیر کے استعمال سے پانچ چھ روز میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔
کسی ویکسین کی تیاری کے بارے میں ڈاکٹر چوہدری کا کہنا ہے کہ اس میں کم از کم بھی ایک سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کوئی بھی ویکسین مارکیٹ میں نہیں آسکی۔
ان کا کہنا ہے کہ ویکسین کا اصل مقصد جسم میں اینٹی باڈیز پیدا کرنا ہے۔ لیکن کرونا وائرس کے بارے میں ابھی تک حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کس طرح کی بیماری پیدا کرتا ہے۔ کس کس عضو پر اثر کرتا ہے۔ ابھی تک اس کی مختلف قسمیں سامنے آ رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ویکسین کی تیاری میں بھی وقت لگ رہا ہے۔
ڈاکٹر ساجد چوہدری نے کہا کہ کچھ کمپنیوں نے ویکسین تیار بھی کر لی ہے مگر ابھی اس کی آزمائش نہیں کی گئی اور اس میں بہت وقت لگتا ہے۔ پھر بیماری ابھی پھیل رہی ہے۔ اسے پوری طرح روکا نہیں جا سکا۔ لیکن، ویکسین تیار ہو گئی تو کم از کم صحتمند لوگوں کو اس مہلک وائرس سے محفوظ کیا جا سکے گا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، ویکسین کی تیاری میں جانسن اینڈ جانسن نامی کمپنی بالٹی مور میں ایک ارب خوراکیں تیار کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے جبکہ کسی انسان پر اس کی آزمائش میں ابھی مہینوں درکار ہیں۔
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اتنی مقدار میں ویکسین کبھی بھی تیار نہیں ہو پائے گی کہ دنیا میں ہر انسان کو اس وائرس سے محفوظ کیا جا سکے۔ البتہ، ابتدائی اندازہ ہے کہ دنیا کے 5.6 ارب لوگوں میں سے صرف 70%کو محفوظ کیا جا سکے گا۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ مزید لکھتا ہے کہ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ ویکسین کی تیاری اور پھر تقسیم کے سلسلے میں دنیا بھر میں مسابقت جاری ہے۔ مینوفیکچررز صرف اس کو مال بیچتے ہیں جو سب سے زیادہ قیمت دے۔ امیر ممالک زیادہ سے زیادہ خرید لیتے ہیں اور جن ممالک میں پراڈکٹ تیار ہوتی ہے وہ اسے پہلے اپنے شہریوں کیلئے ذخیرہ کرتے ہیں۔
اسی دوران صدر ٹرمپ نے ملک میں بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیوں میں سے ایک کے ویکسینز کے سابق چئیرمین منصف سلوئی کو امریکہ میں کرونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری کا انچارج مقرر کیا ہے جبکہ ایک فور سٹار جنرل گستاف ایف پرنا چیف آپریٹنگ آفیسر ہوں گے۔
اتنے بڑے پیمانے پر کرونا وائرس سے مقابلے کی تیاریاں جاری ہیں اور عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ وائرس کہیں جانے والا نہیں۔ زندگی بھر ہمارے ساتھ رہے گا۔