ڈاکٹر اور ہیلتھ ورکرز کرونا وائرس کا براہ راست ہدف

اٹلی کے شہر برگامو کے گیووانی ہاسپیٹل میں ایک ہیلتھ ورکر کرونا وائرس کے مریض کا معائنہ کر رہا ہے۔ 3 اپریل 2020

اس وقت پوری دنیا کے سامنے سب سے اہم مسئلہ کوویڈ 19 کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والوں کا تحٖفظ کرنا ہے۔ اگر ڈاکٹر اور طبی عملہ محفوظ ہو گا تو وہ متاثرہ افراد کو بچانے کا اپنا فریضہ سرانجام دے سکے گا۔

امریکہ کے صدر ٹرمپ نے حال ہی میں لوگوں کو پبلک مقامات پر جہاں ماسک پہننے کا مشورہ دیا ہے، وہاں یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ این 95 قسم کے ماسک صرف ڈاکٹروں اور طبی عملے کو دیے جائیں جن کا زیادہ وقت اسپتالوں میں کرونا کے مریضوں کے ساتھ گزرتا ہے۔

سپین کی وزارت صحت نے ہفتے کے روز اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے والے ہیلتھ ورکرز کی تعداد 18000 سے زیادہ ہے جو ملک میں وائرس کا ہدف بننے والے کل افراد کی تعداد کا 15 فی صد ہے۔سپین کی حکومت ڈاکٹروں کی کمی پوری کرنے کے لیے اب غیر ملکی ڈاکٹروں کو ملازمتیں دے رہی ہے اور نرسیں رکھ رہی ہے۔

اٹلی میں بھی صورت حال ابتر ہے۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اٹلی میں 11 ہزار سے زیادہ ہیلتھ ورکرز کرونا وائرس میں مبتلا ہو چکے ہیں جو کل ہیلتھ فورس کا تقریباً 10 فی صد ہے۔ وہاں 73 ڈاکٹر کرونا وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں ڈینٹسٹ بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کا اسپتالوں سے تعلق نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جن میں وائرس اس وقت منتقل ہوا جب وہ اپنے پرائیویٹ کلینکس میں متاثرہ افراد کے ساتھ رابطے میں آئے تھے۔

ڈاکٹروں اور طبی عملے کے تحفظ کے لیے انہیں ضروری ساز و سامان فراہم کرنا اشد ضروری ہے جس کی طلب میں بڑے پیمانے پر اضافے اور ٹرانسپورٹ کی بندش سے رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ یورپ اور امریکہ کی حکومتوں نے اپنے صنعتی شعبے کو ماسک، جراثیم کش ادویات اور وینٹی لیٹرز کی ہنگامی بنیادوں پر تیاری کے لیے کہا ہے۔

دوسری جانب چین نے بھی ہیلتھ ورکرز کے لیے حفاظتی سامان متاثرہ ممالک کو فراہم کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس کے بعد اب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ دنوں میں صورت حال بہتر ہو جائے گی۔

ہفتے کے روز چین میں عالمگیر وبا کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کے سوگ میں سائرن بجائے گئے اور قومی جھنڈا سرنگوں رہا۔ کرونا وائرس کا آغاز چین کے صوبے ہوبی کے ایک کروڑ سے زیادہ آبادی پر مشتمل صنعتی اور تجارتی شہر ووہان سے ہوا تھا۔ چین میں وائرس سے ہلاک ہونے والے اس پہلے ڈاکٹر کو قومی ہیرو کا درجہ دیا جا رہا ہے، جس نے سب سے پہلے اس نئے وائرس کے خطرے سے آگاہ کیا تھا، مگر حکومتی عہدے داروں نے اس کا نوٹس لینے کی بجائے اسے ہراساں کیا کہ وہ لوگوں کو بلاوجہ خوف زدہ کر رہا ہے۔

اس وبا کا زور توڑنے میں چین کو تقریباً تین مہینے لگے۔ اس دوران 81 ہزار سے زیادہ افراد اس وبا میں مبتلا ہوئے اور 33 سو سے زیادہ لقمہ اجل بن گئے، جن میں ڈاکٹر اور اسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے طبی عملے کے ارکان بھی شامل تھے، جنہیں چین نے شہید کا درجہ دیا ہے۔

آج جب کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور متاثرہ افراد کی تعداد ساڑھے بارہ لاکھ سے زیادہ اور ہلاکتیں 68 ہزار کی گنتی سے آگے نکل چکی ہیں، وائرس کی تباہ کاریاں دیکھتے ہوئے کئی ملکوں کے ماہرین اور صدر ٹرمپ سمیت اعلی عہدے دار اس شبے کا اظہار کر رہے ہیں کہ چین نے اپنے ہاں ہلاکتوں کی تعداد کو گھٹا کر پیش کیا ہے۔

دوسری جانب چینی حکام کا کہنا ہے کہ دنیا نے وائرس کے خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس سے نمٹنے کی خاطرخواہ تیاری نہیں کی جس کی وجہ سے بالخصوص یورپ اور امریکہ کو بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ چین یہ دعوی بھی کرتا ہے کہ اس نے وائرس پر کنٹرول کے لیے اپنے زیادہ تر وسائل استعمال کیے۔

اگر کرونا وائرس کی تباہ کاریوں پر نظر ڈالی جائے تو یورپ کے صرف دو ملکوں اٹلی اور سپین میں ہفتے کی شام تک ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد 28 ہزار سے زیادہ ہے، جب کہ تقریباً ڈھائی لاکھ افراد اس مہلک وبا میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ امریکہ میں تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد تین لاکھ 30 ہزار اور ہلاکتیں 9 ہزار سے بڑھ گئی ہیں۔

امریکہ کا سب سے متاثرہ علاقہ نیویارک ہے جہاں وائرس پازیٹو کی تعداد سوا لاکھ کے لگ بھگ ہے اور ہلاکتیں 4100 کے ہندسے کو عبور کر گئی ہیں۔ متاثرین میں ڈاکٹر، طبی عملہ اور پولیس اہل کار بھی شامل ہیں۔ نیویارک کے پولیس چیف نے حال ہی میں ایک نیوزکانفرنس میں بتایا تھا کہ 800 سے زیادہ پولیس اہل کاروں میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جب کہ پانچ ہزار کے لگ بھگ اہل کار قرنطینہ میں ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے نیویارک کے حکام کی مدد کے لیے ایک ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔