سندھ میں کرونا وائرس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جانے والے سینئر ڈاکٹر عبدالقادر سومرو کی موت کے بعد حفاظتی کٹس کی عدم دستیابی سے دیگر ڈاکٹرز اور طبی عملے میں تشویش بڑھ رہی ہے۔
کراچی میں وائرس سے ہلاک ہونے والے ڈاکٹر عبدالقادر سومرو کا تعلق شکارپور سے تھا اور وہ چانڈکا میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرکے گذشتہ کئی دہائیوں سے پریکٹس کررہے تھے۔
طویل عرصے تک پاکستان اسٹیل ملز کے اسپتال سے وابستہ رہنے کے بعد وہ 2016 ہی میں ریٹائر ہوئے تھے اور کراچی کے علاقے گلشن حدید میں واقع ایک خیراتی اسپتال میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
ڈاکٹر عبدالقادر سومرو جماعت اسلامی کے ذیلی ادارے الخدمت فاونڈیشن کے سابق صوبائی صدر بھی تھے۔
ڈاکٹر عبدالقادر سومرو کے دوست ڈاکٹر فیاض عالم اپنے دوست کی وفات کو ایک بڑا نقصان قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ڈاکٹر قادر کے مریض نہ صرف کراچی بلکہ ٹھٹھہ اور بدین سے بھی انہی کے پاس علاج کے لیے آتے تھے۔
ان کے مریضوں کا ان پر بہت ہی زیادہ اعتماد اور امید تھی۔ اسی بنا پر اپنے کئی دوستوں کی رائے کے بر خلاف بھی انہوں نے اپنا کلینک جاری رکھا اور بالآخر وہ اس وائرس کا شکار ہو کر اسپتال جا پہنچے۔ جہاں انہیں نمونیا ہو گیا اور وہ جانبر نہ ہو سکے۔
عبدالقادر سومرو پاکستان میں کرونا وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے دوسرے ڈاکٹر ہیں۔ اس سے قبل گلگت بلتستان میں فرائض سر انجام دینے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض بھی کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے خود بھی اس کا شکار ہو کر ہلاک ہو گئے تھے۔
الخدمت ہسپتال تھرپارکر کے ایم ایس اور الخدمت فاؤنڈیشن سندھ کے نائب صدر ڈاکٹر عبدالقادرسومرو مریضوں کا علاج کرتے کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور آج خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ مغفرت اور قربانی قبول فرمائے۔ آمینقوم اس مشکل وقت میں اپنے محسن اور اصل ہیرو کی قربانی ہمیشہ یاد رکھے گی pic.twitter.com/d7sVKWL5h1
— Siraj ul Haq (@SirajOfficial) April 6, 2020
کیا ڈاکٹرز کرونا وائرس سے بغیر تیاری کے لڑ رہے ہیں؟
ڈاکٹروں کی ملک گیر تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری اور ای این ٹی اسپیشلسٹ ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم نے چین میں ہلاکتیں شروع ہونے پر ہی خبردار کیا تھا کہ یہ جان لیوا مرض پاکستان میں بھی پنجے گاڑھ سکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ حفاظتی انتظامات کیے جائیں۔ لیکن اس معاملے پر شروع میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اب حالات یکسر مختلف ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ڈاکٹر کرونا کے خلاف جنگ سے بغیر ہتھیار نبرد آزما ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی بہتر تربیت ہے۔ اُن کے بقول ہمارا مقابلہ ایسے دشمن سے ہے جو چھپا ہوا ہے۔
ڈاکٹر قیصر کا کہنا تھا کہ بہت سے ڈاکٹرز کے لیے حفاظتی انتظامات کے ساتھ اپنے مریضوں کو دیکھنا ایک نئی چیز ہے۔
انہوں نے کہا اب ڈاکٹرز کو بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ حفاظتی کٹس کتنی ضروری ہیں۔ پیر کو کوئٹہ میں ڈاکٹرز نے بھی اس ضمن میں احتجاج کیا تھا۔
پیر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈک اسٹاف کے لیے انفرادی حفاظتی آلات فراہم کرنے کے لیے براہ راست لنک قائم کیا جا چکا ہے۔
اجلاس میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملک میں ماسک سمیت حفاظتی سامان کی کثرت موجود ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ صوبوں کو اب تک پانچ لاکھ این 95 ماسک فراہم کیے جا چکے ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں حکومت کے اندازے کے مطابق 1162 ایسی حفاظتی کٹس کی ضرورت تھی لیکن صوبے کو 5600 کٹس فراہم کی گئی ہیں۔
حکام کے مطابق اس قسم کے ماسک وہ لوگ بھی استعمال کررہے ہیں جنہیں ان کی ضرورت نہیں جس کی وجہ سے ان کی کمی درپیش ہے۔
ادھر پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف کے حکم پر میڈیکل اسٹاف کی مدد کے لیے حفاظتی سامان کوئٹہ بھجوایا گیا ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہا ہے کہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس اس جنگ میں صف اول کے سپاہی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک بھی اس وبا سے نمٹنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ حکومتِ پاکستان وسائل کو حاصل کرنے اور انہیں فراہم کرنے کی سخت کوشش کر رہی ہے، اور مشکل کی اس گھڑی میں ہمیں تحمل اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
Emergency supplies of medical equipment including PPEs being despatched to Quetta on orders of COAS to help medical staff fight Covid-19 effectively in Balochistan. “Doctors & paramedics are the frontline soldiers in this war...” (1/2)
— DG ISPR (@OfficialDGISPR) April 7, 2020
چند روز قبل صوبائی دارلحکومت کراچی میں بھی ان سرکاری ہسپتالوں میں تعینات ڈاکٹرز نے حفاظتی کٹس کی عدم فراہمی پر احتجاج کیا تھا جہاں کرونا کے متاثرہ مریضوں کے لئے آئسولیشن وارڈز قائم ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر اہتمام عباسی شہید اسپتال کے ڈاکٹرز نے میئر کراچی وسیم اختر کے سامنے شدید احتجاج اور نعرے بازی کی تھی اور حفاظتی سامان کی دستیابی ممکن بنانے کے مطالبات کیے تھے۔
ڈاکٹرز کے مطابق انہیں بلدیہ کے مالی بحران کے باعث کئی ماہ کی تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئی۔ احتجاج کے باعث میئر کو دورہ ادھورا چھوڑ کر ہی واپس جانا پڑا تھا۔
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے رہنما ڈاکٹر فیاض عالم کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے لڑنے والے ڈاکٹرز اور پیرا میڈکس کے لیے بعض حکومتی اقدامات کے باوجود بھی حالات سازگار نہیں۔
ان کے بقول وہ اب بھی سیفٹی گیئرز کے بغیر ہی مرض کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ لہذٰا ڈاکٹرز اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی اقدامات کر رہے ہیں۔ اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔