اگر دنیا میں بھوک و افلاس اور معاشی بدحالی کی موجودہ صورتِ حال جاری رہتی ہے اور اسے درست کرنے کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو 'آکسفام' کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال کے آخر تک بھوک سے روزانہ 12 ہزار افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی اردو سروس نے آکسفام کی اس نئی رپورٹ پر ادارے کے امریکہ میں سینئر منیجر ایرک مونوز، امریکن یونیورسٹی دبئی کے ڈین ڈاکٹر ظفر معین اور شکاگو اسٹیٹ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ظفر بخاری سے گفتگو کی ہے۔
آکسفام کے عہدے دار ایرک مونوز کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم نے یہ رپورٹ ورلڈ فوڈ پروگرام کے تخمینوں کی بنیاد پر تیار کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ اگر اس انسانی بحران کو روکنے کے لیے ابھی سے اقدامات نہ کیے گئے تو اس سال کے آخر تک مزید 12 کروڑ سے زیادہ لوگ شدید بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آکسفام نے اپنی رپورٹ میں ایسے 10 مقامات کی نشاندہی بھی کر دی ہے جہاں غذائی قلت کا شدید خطرہ ہے اور وہاں فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان میں یمن، شام اور سوڈان جیسے علاقے شامل ہیں۔
ڈاکٹر ظفر معین اور ڈاکٹر ظفر بخاری دونوں نے رپورٹ کے مندرجات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ کرونا نے جس طرح معیشتوں کو تباہ کیا ہے اور غربت و افلاس میں جس قدر اضافہ کیا ہے وہ پوری دنیا کے لیے ایک چیلنج ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ان ملکوں کو جن کی معیشتیں بہتر ہیں اور اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کو آگے آنا پڑے گا ورنہ پھر ساری دنیا اس بحران کی لپیٹ میں آ جائے گی۔
مزید تفصیلات اس آڈیو میں
Your browser doesn’t support HTML5