چین کے شہر ووہان میں گزشتہ سال دسمبر میں کرونا وائرس کیسز سامنے آئے تو شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ وبا دنیا کی معیشت، تجارت اور رہن سہن سمیت طرز زندگی کو بدل کر رکھ دے گی۔
چھ ماہ گزر جانے کے باوجود بھی دنیا اس وبا پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں روزانہ ہزاروں کیس رپورٹ ہو رہے ہیں اور اموات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
چھ ماہ بعد صورتِ حال یہ ہے کہ یہ وائرس پانچ لاکھ سے زائد انسانوں کی جانیں لے چکا ہے۔ ایک کروڑ سے زائد کیسز اور عالمی معیشت کو کھربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے جب کہ دنیا کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ ایئر لائنز، سیاحت، تعلیم، کاروبار غرض کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اس وائرس کی زد میں نہ آیا ہو۔
چین سمیت دنیا کے کئی ملکوں نے کافی حد تک اس وبا پر قابو پا لیا ہے لیکن دنیا کے کئی ملک خصوصاً امریکہ، برازیل، بھارت، پاکستان اور لاطینی امریکہ کے کئی ملک اب بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کی زد میں ہیں۔
کئی ملک بتدریج کاروبار کھول بھی رہے ہیں لیکن اس سے وائرس مزید پھیل رہا ہے۔ وبائی امراض کے ماہرین اس حوالے سے حکومتوں کو خبردار بھی کر رہے ہیں کہ پابندیاں نرم کرنے سے وبا پھیل سکتی ہے۔
طبی ماہرین وائرس کو مکمل طور پر سمجھنے سے تاحال قاصر
ماہرینِ صحت کے مطابق کرونا وائرس بنیادی طور پر دو طریقوں سے انسانی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ ایک جسمانی اور دوسرا نفسیاتی۔ اس موذی مرض کے جسمانی نقصانات کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش اب بھی جاری ہے۔
آغاز میں کہا گیا کہ یہ سانس کے نظام کو جکڑ لیتا ہے پھر تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں کہا گیا کہ یہ وائرس پھیپھڑوں کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔
لیکن ایک تازہ ترین رپوٹ کے مطابق یہ وائرس پھیپھڑوں کے علاوہ انسانی جسم کے دیگر اعضا کو بھی متاثر کرتا ہے۔ لیکن اب بھی سائنس دان اس وائرس سے متعلق حتمی رائے دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں قائم تحقیقاتی ادارے 'اسکرپس' سے منسلک ماہر امراضِ قلب ڈاکٹر ایرک ٹوپول کہتے ہیں کہ "ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ محض سانس لینے کے نظام پر حملہ کرتا ہے۔ لیکن یہ تو جگر، دماغ اور گردوں پر بھی حملہ کرتا ہے اور یوں یہ کئی اعضا پر اثر کرتا ہے۔"
اُن کے بقول شروع میں ہمیں یہ سب معلوم نہیں تھا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی ایک رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس سے مریضوں کا خون منجمد ہو سکتا ہے جو حرکت قلب بند ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔
وائرس سے متاثرہ مریضوں کو ذہنی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں سر کا چکرانا، نیم بے ہوشی جیسی کیفیت اور کنفیوژن بھی شامل ہے جب کہ اس مرض سے مکمل شفا یابی ایک صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔
دنیا تاریخی معاشی بحران سے دوچار
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی معیشت کو ایسے بحران کا سامنا ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
کئی ملکوں میں لاک ڈاؤن اور صنعتی سرگرمیاں نہ ہونے سے دنیا میں اقتصادی ترقی کی شرح منفی 4.9 فی صد تک گرنے کا تخمینہ ہے۔
مغربی ملکوں کی معیشتیں منفی رجحان ظاہر کر رہی ہیں جب کہ چین کی اقتصادی ترقی کی شرح گھٹ کر صرف ایک فی صد رہ جائے گی۔
جنوبی ایشیا کے ملک بھارت اور پاکستان بھی بدترین معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔
کرونا وائرس کا بحران عین اس وقت آیا جب دنیا جدیدیت کے ثمرات سمیٹ رہی تھی۔ دنیا زمینی، فضائی اور سمندری راستوں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک تھی۔ لیکن اس وبا نے اس سارے نظام کو متاثر کیا۔ فضائی سفر محدود ہونے سے سماجی فاصلوں کی طرح دنیا کے کئی ملکوں کے مابین تعاون بھی محدود ہو گیا۔
ان حالات میں انٹرنیٹ وہ واحد ذریعہ تھا جس نے دنیا کو جوڑے رکھا۔ سوشل میڈیا کا استعمال بڑھا اور ویڈیو چیٹنگ ایپس کے ذریعے لوگوں نے ایک دوسرے سے سماجی تعلق برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
عالمی بینک کے مطابق موجودہ اقتصادی گراوٹ دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے زیادہ سنگین ہے اور 1860 کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ دنیا کے اتنے زیادہ ممالک اقتصادی تنزلی کا شکار ہیں۔
جنوبی امریکہ اور ایشیا کے ترقی پذیر ممالک میں لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ عالمگیر وبا کی وجہ سے فصلوں کے زیاں اور خوراک کی بروقت ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے دنیا کو غذائی قلت کا بھی سامنا ہو سکتا ہے جب کہ موجودہ حالات میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا معاملہ بھی پسِ پشت چلا گیا ہے۔
طبی عملے کا کردار اور دنیا کے بدلتے ڈھنگ
جہاں کرونا بحران نے لوگوں کو مالی مشکلات اور غیر یقینی صورتِ حال میں دھکیل دیا وہاں بہت سی ایسی مثالیں بھی سامنے آئیں جن کے ذریعے لوگوں کا انسانی اقدار اور ترقی کے فوائد کے حوالے سے اعتماد مضبوط ہوا۔
سب سے پہلے صحتِ عامہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے کارکنان ڈاکٹر، نرسوں اور فرنٹ لائن ورکرز نے انسانیت کی بے لوث خدمت اور ایثار کا مظاہرہ کیا۔
اس ضمن میں نیویارک شہر کی مثال دی جاتی ہے جہاں صحت کے عملے نے اس افتاد سے نمٹنے کے لیے اہم ترین کردار ادا کیا۔ طبی عملے کی حوصلہ افزائی کے لیے لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں نے اپنے گھروں سے یک زبان ہو کر ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کو خراج تحسین پیش کیا۔
دنیا کے کئی ممالک جہاں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے وہاں تعلیمی اداروں نے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے طلبہ کے لیے آن لائن کلاسز کا اہتمام کیا تاکہ اس وبا کے دوران بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔
اس دوران اقوامِ متحدہ سمیت کئی اداروں نے عوام کو اس موذی مرض سے بچاؤ کے لیے بروقت معلومات کی فراہمی کی کوششیں کیں۔ ان اداروں کے ساتھ ساتھ امریکہ ٹاسک فورس کے ممبر اور وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی جیسی شخصیات نے بھی عوام کا اعتماد بحال رکھا۔
لیکن اس کے ساتھ ہی کرونا وائرس سے متعلق غلط فہمیوں اور فیک نیوز کے اثرات بھی دنیا نے محسوس کیے اور اب بھی فیک نیوز سے نمٹنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
دنیا کے کئی ملکوں میں فلاحی تنظیموں نے خوراک کی فراہمی اور مالی مدد کے ذریعے بے روزگار اور غریب لوگوں کی تکالیف کو کم کیا۔
اتنے بڑے بحران سے نمٹنے کے لیے جاپان، نیوزی لینڈ اور تھائی لینڈ کی حکومتوں نے موثر اقدامات کیے جنہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔
'وائرس کے خاتمے کی منزل ابھی دُور ہے'
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا ابھی کرونا وائرس پر قابو پانے سے بہت دُور ہے لہذٰا اب بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
مبصرین کی نظر میں ابھی دنیا اس بحران سے انتظامی سطح پر نمٹ رہی یے اور اس کے اقتصادی مسائل کے حل کے لیے بہت سے اقدامات کرنا ہوں گے۔
'فوربز میگزین' میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معاشی اُمور کے ماہر ڈیوڈ میچلز کہتے ہیں کہ کیوں کہ ابھی دنیا معاشی عدم استحکام سے دوچار ہے لہذٰا عالمی رہنما بھی اس بحران کے معاشی اثرات سے نمٹنے کے حوالے سے غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ تجارت کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنا بہت ضروری ہو گا جب کہ اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ کوئی بھی ملک الگ تھلگ رہ کر اقتصادی طور پر مضبوط نہیں ہو سکتا۔
چھ ماہ کے دوران سماجی اور جغرافیائی فاصلوں کی پابندی نے حکومتوں اور عوام کا انفارمیشن ٹیکنالوجی پر انحصار کئی گنا بڑھا دیا۔ زوم میٹنگ کے ذریعے بزنس میٹنگز کے علاوہ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری ہے جب کہ ٹیلی میڈیسن کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عالمی وبا نے یہ بھی ثابت کیا کہ صحتِ عامہ ایک مشترکہ مسئلہ ہے۔ لہذٰا مستقبل میں اس حوالے سے ملکوں کو مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔