اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس دنیا بھر میں خواتین پر ایک اور انداز سے بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایسے بچے پیدا ہوں گے جن کی خواہش ہے، نہ ہی طلب؛ چونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں خواتین اب خاندانی منصوبہ بندی کی سہولتوں تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے خاندانی منصوبہ بندی کے ادارے، یو این ایف پی اے کی ایکزیکٹو ڈائریکٹر، ڈاکٹر نتالیہ خانم نے کہا ہے کہ نئے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جلد ہی دنیا بھر میں خواتین اور لڑکیوں پر کوویڈ 19 کے بڑے پیمانے پر اثرات ظاہر ہونے والے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ عالمی وبا ناہمواری اور عدم مساوات کو مزید گہرا کر رہی ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں خواتین اور لڑکیاں کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے خاندان کی منصوبہ بندی اور اپنے بچوں اور ان کی صحت کا تحفظ کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں، کیونکہ ان کی رہنمائی کرنے اور سہولتیں فراہم کرنے والے مراکز بند پڑے ہیں، یا ان میں بہت کم سطح پر کام ہو رہا ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کے عالمی ادارے، یو این ایف پی اے پائیدار ترقی کے اپنے اہداف کے تحت خاندانی منصوبہ بندی کی ضروریات پوری کرنے، جنس کی بنیاد پر تشدد، خواتین کے نازک اعضا کاٹنے کی تکلیف دہ رسم و رواج اور بچپن کی شادیوں کی روک تھام کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ادارہ حمل اور زچگی کے دوران خواتین کی اموات کو محدود کرنے پر بھی اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
یو این ایف پی اے نے اس سلسلے میں امریکہ کی جانز ہاپکز یونیورسٹی اور آسٹریلیا کی وکٹوریہ یونیورسٹی کے اشتراک سے کرونا وائرس کے خواتین اور لڑکیوں پر ممکنہ اثرات پر تحقیق کی ہے۔
ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی اور ماں اور بچے کو سہولتیں فراہم کرنے والے زیادہ تر مراکز بند پڑے ہیں یا وہ محدود سطح پر خدمات مہیا کر رہے ہیں۔ ایک اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اسی دوران کرونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر بہت سی خواتین اور لڑکیوں کے اہم میڈیکل چیک اپ نہیں ہو پا رہے جس کی انہیں اشد ضرورت ہے۔
دوسری جانب کرونا وائرس سے سامان کی نقل و حمل میں خلل پڑنے سے مانع حمل ادویات کی فراہمی گھٹ گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 45 کروڑ خواتین مانع حمل ادویات استعمال کرتی ہیں، جس میں سے ساڑھے 11 کروڑ کا تعلق متوسط اور کم آمدنی والے ملکوں سے ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اگر لاک ڈاؤن چھ مہینوں تک جاری رہتا ہے تو متوسط اور کم آمدنی کے ملکوں میں تقریباً پونے پانچ کروڑ خواتین مانع حمل ادویات سے محروم رہ جائیں گی جس کے نتیجے میں لگ بھگ 70 لاکھ غیر مطلوبہ حمل ٹھہر جائیں گے۔ ادارے کا اندازہ ہے کہ اس عرصے کے دوران جنس کی بنیاد پر تشدد کے تین کروڑ کے اضافی واقعات ہوں گے اور اگر لاک ڈاؤن مزید جاری رہتا ہے تو ہر تین مہینوں میں ان واقعات میں مزید ڈیڑھ کروڑ کا اضافہ ہو گا۔
یو این ایف پی اے کی اعلیٰ عہدے دار نتالیہ خانم نے کہا ہے کہ خواتین کی تولیدی صحت اور حقوق کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جانا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات لازماً جاری رہنی چاہیئں اور متعلقہ سامان کی فراہمی بلا روک جاری رہنی چاہیئے اور اس کمزور طبقے کو وہ تحفظ اور مدد لازماً ملنا چاہیئے جس کی اسے ضرورت ہے۔