امریکہ میں 2017ء کے دوران شرحِ پیدائش 30 سال کی کم ترین سطح پر رہی اور 30 کے پیٹے تک کی خواتین میں ماں بننے کے رجحان میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی۔
امریکی حکومت کی جانب سے جمعرات کو جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 2014ء سے شرحِ پیدائش میں مسلسل کمی آرہی ہے لیکن 2017ء کے دوران اس میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2017ء کے دوران امریکہ میں ایک سال قبل کے مقابلے میں 92 ہزار کم بچے پیدا ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ میں گزشتہ سال 38 لاکھ سے زائد بچوں کی پیدائش کا اندراج کرایا گیا اور یہ تعداد 1987ء کے بعد امریکہ میں ایک سال کے دوران پیدا ہونے والے کل بچوں کی کم ترین تعداد ہے۔
رپورٹ امریکہ کے 'سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن' نے ملک بھر میں جاری کیے جانے والے برتھ سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر مرتب کی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں 2017ء کے دوران شرحِ پیدائش میں کمی اس لحاظ سے حیران کن ہے کہ عموماً معاشی صورتِ حال بہتر ہونے کی صورت میں شرحِ پیدائش بڑھتی ہے۔
امریکہ میں گزشتہ سال بے روزگاری کی شرح میں نمایاں کمی آئی تھی اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہونےکے سبب شرحِ نمو میں اضافہ ہوا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شرحِ پیدائش میں کمی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں سرِ فہرست نوجوان لڑکیوں میں ماں بننے کی خواہش اور رجحان میں کمی اور تارکینِ وطن کی آبادی میں آنے والی تبدیلیاں ہیں۔
امریکہ میں تارکِ وطن خاندانوں میں شرحِ پیدائش مقامی آبادی کی نسبت خاصی بلند ہے اور ہر سال امریکہ بھر میں جنم لینے والے کل بچوں میں سے ایک چوتھائی تارکِ وطن خاندانوں میں جنم لیتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت امریکہ میں آباد تارکینِ وطن کی ایک بہت بڑی تعداد ایشیائی باشندوں پر مشتمل ہے جو دیگر تارکِ وطن گروہوں کے مقابلے میں نسبتاً کم بچوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حمل کے لیے موزوں عمر سمجھی جانے والی 15 سے 44 سال کی خواتین میں شرحِ پیدائش ریکارڈ حد تک گر گئی ہے اور گزشتہ سال اس ایج گروپ کی ہر ایک ہزار میں سے صرف 60 خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش ریکارڈ کی گئی۔
واضح رہے کہ امریکہ کا شمار ان چند ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے جہاں شرحِ پیدائش نسبتاً بلند ہے۔ گو کہ امریکہ میں شرحِ پیدائش اب بھی اسپین، یونان، جاپان اور اٹلی جیسے ملکوں کے مقابلے میں خاصی بہتر ہے لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ فرق بتدریج کم ہورہا ہے۔