یہ قرارداد لڑکیوں کی کم عمر میں شادی، دوسری شادی کے لئے بیوی سے اجازت اور زنا کے مقدمے میں ’ڈی این اے ٹیسٹ‘ کو بطور شہادت قبول نہ کرنے سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے خلاف منظور کی گئی
کراچی —
سندھ اسمبلی میں پیر کو اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے لڑکیوں کی کم عمر میں شادی، دوسری شادی کے لئے بیوی سے اجازت اور زنا کے مقدمے میں ’ڈی این اے ٹیسٹ‘ کو بطور شہادت قبول نہ کرنے سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے خلاف قرار داد منظور کرلی گئی۔
سیاسی تجزیہ نگاروں اور آزاد خیال مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں جبکہ اسمبلی میں مختلف معاملات پر مختلف نظریات رکھے جاتے ہوں اور ارکان سیاسی نظریات کے حوالے سے ایک دوسرے کی ضد ہوں، وہاں اسلامی نظریاتی کونسل کے خلاف ایک زبان ہوجانا خوشگوار حیرت ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے حال ہی میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی پر پابندی کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔ کونسل کا یہ نظریہ بھی تھا کہ پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دینے سے متعلق قانون ختم کیا جائے۔
اجلاس پیر کو اسپیکر آغا سراج درانی کی سربراہی میں شروع ہوا ہی تھا کہ اس دوران مسلم لیگ فنکشنل کی رکن مہتاب اکبر راشدی نے زیادتی کیس میں ’ڈی این اے‘ کی بطور شہادت قبولیت کے خلاف قرارداد پیش کی۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سندھ اسمبلی کی جانب سے وفاق کے ان معاملات سے متعلق بیانات پر ارکان کو تحفظات ہیں، جنھیں دور کیا جانا چاہیئے۔ ایوان نے قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کرلیا۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کونسل کی ان سفارشات سے لوگوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا ہو رہا ہے۔
اکبر راشدی نے اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا کہ اگر شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس کے لئے لازمی عمر 18سال ہوسکتی ہے تو شادی کی عمر 18 سال طے کرنے میں کیا حرج ہے؟ ہمارا معاشرے آج کی جدید دنیا میں بچوں کی شادی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے رکن سید سردار احمد کا کہنا تھا کہ کونسل آئین کے آرٹیکل 228 کے تحت قائم کی گئی تھی، اسے اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ اپنا فیصلہ صادر کرسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کونسل میں ایسے افراد کی تقرری ممکن بنائے جنہیں روایات اور مذہب سے متعلق مکمل معلومات ہوں۔
سندھ اسمبلی کے سیشن کے دوران کراچی اور صوبے کے دیگر اضلاع میں پیش آنے والے زنا کے واقعات پر بھی غور کیا گیا۔ ارکان نے مطالبہ کیا کہ زنا کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ لازمی قرار دیا جائے، جبکہ اسے بطور شہادت بھی قبول کرنے سے متعلق قانون بنائے جائیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں اور آزاد خیال مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں جبکہ اسمبلی میں مختلف معاملات پر مختلف نظریات رکھے جاتے ہوں اور ارکان سیاسی نظریات کے حوالے سے ایک دوسرے کی ضد ہوں، وہاں اسلامی نظریاتی کونسل کے خلاف ایک زبان ہوجانا خوشگوار حیرت ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے حال ہی میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی پر پابندی کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔ کونسل کا یہ نظریہ بھی تھا کہ پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دینے سے متعلق قانون ختم کیا جائے۔
اجلاس پیر کو اسپیکر آغا سراج درانی کی سربراہی میں شروع ہوا ہی تھا کہ اس دوران مسلم لیگ فنکشنل کی رکن مہتاب اکبر راشدی نے زیادتی کیس میں ’ڈی این اے‘ کی بطور شہادت قبولیت کے خلاف قرارداد پیش کی۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سندھ اسمبلی کی جانب سے وفاق کے ان معاملات سے متعلق بیانات پر ارکان کو تحفظات ہیں، جنھیں دور کیا جانا چاہیئے۔ ایوان نے قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کرلیا۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کونسل کی ان سفارشات سے لوگوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا ہو رہا ہے۔
اکبر راشدی نے اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا کہ اگر شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس کے لئے لازمی عمر 18سال ہوسکتی ہے تو شادی کی عمر 18 سال طے کرنے میں کیا حرج ہے؟ ہمارا معاشرے آج کی جدید دنیا میں بچوں کی شادی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے رکن سید سردار احمد کا کہنا تھا کہ کونسل آئین کے آرٹیکل 228 کے تحت قائم کی گئی تھی، اسے اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ اپنا فیصلہ صادر کرسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کونسل میں ایسے افراد کی تقرری ممکن بنائے جنہیں روایات اور مذہب سے متعلق مکمل معلومات ہوں۔
سندھ اسمبلی کے سیشن کے دوران کراچی اور صوبے کے دیگر اضلاع میں پیش آنے والے زنا کے واقعات پر بھی غور کیا گیا۔ ارکان نے مطالبہ کیا کہ زنا کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ لازمی قرار دیا جائے، جبکہ اسے بطور شہادت بھی قبول کرنے سے متعلق قانون بنائے جائیں۔