میانمار کی فوج کی جانب سے مارشل لا کے بعد امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے سخت ردِعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے بقول چین، بھارت اور خطے کے دیگر ممالک اس معاملے پر محتاط ردِعمل دے رہے ہیں۔
خطے کے دیگر ممالک بشمول چین، بھارت اور پاکستان نے میانمار کی صورتِ حال پر محتاط ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے تمام فریقوں کو آئین کا احترام کرنے اور جمہوری عمل برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میانمار میں سامنے آنے والی صورتِ حال اس ملک کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے جہاں ماضی میں کئی سالوں تک ملک کا اقتدار فوج کے پاس رہا ہے اور ایک بار پھر میانمار کو اسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔
تجزیہ کاروں کے بقول پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت خطے کے دیگر ممالک بھی ماضی میں ایسی صورتِ حال کا سامنا کر چکے ہیں جہاں غیر جمہوری مداخلت کے وجہ سے جمہوری عمل تعطل کا شکار ہوتا رہا ہے۔
لیکن تجزیہ کاروں کے خیال میں خطے کے ممالک امریکہ اور مغربی ممالک کے برعکس اپنے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے میانمار میں فوج کے اقتدار سنبھالنے کے بارے میں بیان دیتے ہوئے محتاط انداز اختیار کر رہے ہیں۔
عالمی اُمور کے تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ جمہوری ممالک بشمول امریکہ جمہوری عمل کی ہمیشہ حمایت کرتے ہیں اور اب بھی میانمار کے بارے میں امریکہ نے ایک اُصولی مؤقف اختیار کیا ہے۔
حسن عسکری کے بقول امریکہ اور مغربی ممالک نے میانمار میں فوج کی طرف سے اقتدار سنبھالنے پر اعتراض کیا ہے تو ان کےبقول یہ بات قابلِ فہم ہے کیوں کہ یہ ممالک جمہوری عمل کی حمایت کرتے ہیں۔
دوسری جانب حسن عسکری کے بقول جن ممالک میں جمہوریت نہ ہو امریکہ اُن کی معاشی امداد روک دیتا ہے۔
ان کے بقول اگرچہ یہ واضح نہیں کہ میانمار امریکہ سے کوئی امداد حاصل کر رہا تھا یا نہیں کیوں کہ ان کے بقول عالمی سطح پر میانمار کے تعلقات محدود ہیں لیکن میانمار اور چین کے تعلقات ٹھوس بنیادوں پر استوار ہیں۔
بھارت کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کے پرفیسر ہیپی مون جیکب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت، چین اور پاکستان کا اس فوجی بغاوت پر ردِعمل امریکہ اور دیگر ممالک کے مقابلے میں مختلف ہی ہو گا۔
جیکب کے بقول بھارت بھی میانمار کے بارے میں محتاط رہے گا کیوں کہ ان کے بقول بھارت یہ نہیں چاہے گا کہ نئی دہلی کے کسی بیان کی وجہ سے میانمار چین کے زیادہ قریب ہو جائے۔
تجزیہ کار جیکب کہتے ہیں کہ امریکہ اور بعض دیگر مغربی ممالک کا یہ خیال تھا کہ آنگ سان سوچی کی جماعت اقتدار میں آ کر جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی صورتِ حال کو بہتر کرے گی جس سے فوج کا اثر و رسوخ بھی کم ہو گا۔
SEE ALSO: میانمار میں مارشل لا لگانے والے جنرل من آنگ لینگ کون ہیں؟حسن عسکری کا کہنا ہے کہ جہاں تک چین کا تعلق ہے اسے میانمار کی فوجی حکومت کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ لیکن ان کےبقول امریکہ میں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ جو منتخب حکومت میانمار میں بننے جا رہی تھی شاید وہ امریکہ کے قریب ہوتی اور چین سے شاید تھوڑی دوری اختیار کر لیتی۔
فوجی مداخلت پر دیگر ممالک کا ردِعمل
اقوامِ متحدہ سمیت یورپی یونین، برطانیہ، آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور سنگاپور نے میانمار میں صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے جب کہ چین نے میانمار کی تازہ صورتِ حال کی مذمت نہیں کی۔ لیکن بیجنگ کا یہ مؤقف سامنے آیا ہے کہ میانمار چین کا دوست ملک ہے اور ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ میانمار کے تمام فریق آئین اور قانون کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اپنے اختلافات دور کریں گے۔
دوسری جانب بھارت کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت نے ہمیشہ میانمار میں جمہوری عمل کی طرف پیش رفت کی حمایت کی ہے۔ وزارتِ خارجہ نے کہا کہ بھارت یہ توقع کرتا ہے کہ قانون کی حکمرانی اور جمہوری عمل کو برقرار رکھا جائے گا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان میانمار کی صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان یہ توقع کرتا ہے کہ تمام فریق تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھیں گے اور مسئلے کے پر امن حل کے لیے تعمیری انداز اختیار کریں گے۔