پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو پاکستانی طالبان کے سابق ترجمان اور شدت پسند کمانڈر قاری احسان اللہ احسان کو رہا کرنے سے منع کردیا ہے اور ان کے بارے میں کی جانے والی تحقیقات کے مکمل ہونے پر عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ حکم بدھ کو فضل خان ایڈوکیٹ کی جانب سے دائر رٹ پٹیشن پر سنایا۔
فضل خان ایڈوکیٹ نے رواں سال مئی میں اس وقت پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی جب کالعدم تحریکِ طالبان اور بعد میں اس سے علیحدہ ہونے والے دھڑے کالعدم جماعت الاحرار کے ترجمان کا ایک انٹرویو ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر نشر کیا گیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ قاری احسان نے سکیورٹی اداروں کو اپریل 2017ء میں گرفتاری دے دی تھی۔
درخواست گزار نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا تھا کہ قاری احسان نے کالعدم شدت پسند تنظیموں کے ترجمان کی حیثیت سے دہشت گردی کی متعدد وارداتوں کی ذمہ داری قبول کی تھی جن میں 16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والا وہ حملہ بھی شامل تھا جس میں 138 بچوں سمیت 150 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔
درخواست گزار نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ قاری احسان اللہ احسان نے باقاعدہ معاہدے کے تحت اپنے آپ کو حکومت اور سکیورٹی فورسز کے حوالے کیا ہے لہذا اسے کسی بھی وقت رہا کیا جاسکتا ہے۔
فضل خان ایڈوکیٹ نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ قاری احسان کے خلاف دیگر شدت پسندوں کی طرح فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اوراسے قرار واقعی سزا دی جائے۔
درخواست کی گزشتہ سماعت پر عدالت نے وفاقی حکومت کی طرف سے ایک جملے پر مشتمل جواب پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور وفاقی حکومت کو مفصل جواب دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم بدھ کو ہونے والی سماعت میں بھی وفاقی حکومت نے ایک مختصر جواب عدالت میں جمع کرایا جس میں کہا گیا ہے کہ کہ قاری احسان کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔
سماعت کے دوران پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے حکم دیا کہ وفاقی حکومت تحقیقات مکمل ہونے اور عدالت کو مطلع کیے بغیر احسان اللہ احسان کو رہا کرنے سے باز رہے۔
قاری احسان کی گرفتاری کے بعد جماعت الاحرار نہ صرف مزید دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے بلکہ اس سے منسلک متعددکمانڈروں نے بھی گرفتاری دیدی ہے۔