اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے سیکٹر ای الیون میں لڑکے اور لڑکی کو ہراساں اور تشدد کرنے کے کیس میں مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت پانچ افراد کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔
وفاقی دارالحکومت کی سیشن عدالت کے ایڈیشنل جج عطا ربانی نے جمعے کو کیس کا محفوظ کردہ فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
عدالت نے ملزم عثمان مرزا، عطاالرحمٰن، ادریس قیوم بٹ، محب بنگش، فرحان شاہین کو عمر قید کی سزا سنائی جب کہ ملزم ریحان حسین اور عمر بلال مروت کو بری کردیا۔
عثمان مرزا کیس کا ٹرائل ساڑھے پانچ ماہ میں مکمل ہوا۔ ملزمان پر اٹھائیس ستمبر 2021 کو فردِ جرم عائد کی گئی تھی جب کہ 19 مارچ کو سماعت مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اس کیس میں لڑکی کے اپنے بیان سے منحرف ہونے کے بعد حکومت اس کیس کی پیروی کر رہی تھی۔
اس کیس میں 12جنوری کو متاثرہ لڑکی اور لڑکے نے ملزمان کو پہچاننے اور کیس کی پیروی کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد حکومت نے اس کیس میں فریق بننے کا اعلان کیا اور کہا کہ ریاست اس معاملےکو منطقی انجام تک پہنچائے گی۔
اس کیس میں پولیس اور استغاثہ نے جدید فرانزک ثبوت پیش کیے اور پیش کردہ ویڈیوز سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ویڈیو میں نظر آنے والے ملزمان وہی تھے اور انہوں نے لڑکے اور لڑکی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
جمعہ کو کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے وقت تمام ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر جج عطا ربانی کا ملزمان سے مکالمہ بھی ہوا۔
جج عطا ربانی نے عثمان مرزا کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کو کیا مسئلہ تھا، ویڈیو کیوں بنائی تھی۔ اس کے جواب میں عثمان مرزا نے کہا کہ انہیں کوئی مسئلہ نہیں اور انہیں ویڈیو کا علم نہیں۔
جج نے کہا کہ ویڈیو میں آپ چہرہ پکڑ کر کیمرے کی طرف کر رہے تھے۔ جس پر عثمان مرزا کا کہنا تھا کہ یہ ویڈیو ان کے مخالف نے بنائی ہے یہ ان کا کام ہے۔مرکزی ملزم کے جواب پر جج نے کہا کہ مخالفت تو کاروبار میں ہوتی ہےمگر ویڈیو کیوں بنائی۔
عثمان مرزا کیس کے فیصلے پر وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ کیس میں لڑکی اور نوجوان کے منحرف ہونے کے باوجود عمر قید کی سزا جدید ٹیکنالوجی کو بطورِ شہادت قبول کرنا ہے جوکہ خوش آئند ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہی معاشرے ترقی کا زینہ چڑھتے ہیں جہاں انصاف ہو۔ سیالکوٹ اور دیگر مقدموں میں بھی انصاف قریب ہے۔
پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری نے ایک بیان میں کہا کہ اس فیصلے کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
ان کے بقول تحریک انصاف کی حکومت عمران خان کی قیادت میں خواتین اور بچیوں کے پیچھے کھڑی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرنے کی پالیسی ہے۔ انہوں نے پولیس اور استغاثہ کو بھی مبارک باد دی۔
کیس کا پس منظر
پاکستان میں گزشتہ برس چھ جولائی کو سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں جس میں کچھ افراد کو ایک کمرے میں لڑکا اور لڑکی کو ہراساں کرتے دیکھا گیا تھا۔ بعد ازاں خاتون کو بے لباس بھی کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیے عثمان مرزا کیس: متاثرہ لڑکی کے بیان سے مکرنے کے باوجود ملزمان کو سزا ہو سکتی ہے؟ان ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد پورے ملک میں اس پر بھرپور احتجاج کیا گیا اور وزیرِاعظم عمران خان نے بھی اس معاملے پر نوٹس لیتے ہوئے ایکشن لینے کی ہدایت کی تھی۔
ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے 24 گھنٹوں کے اندر اس کیس میں نامزد مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ابتدائی تفتیش میں ملزم عثمان مرزا نے تسلیم کیا تھا کہ وہ اس واقعے کے وقت نشے میں تھا جس کی وجہ سے انہوں نے یہ سب کیا۔ البتہ انہوں نے جنسی زیادتی کے الزامات سے انکار کیا تھا۔
پولیس نے اس کیس میں ایس ایچ او تھانہ گولڑہ کی طرف سے ایف آئی آر درج کی اور ملزمان کو گرفتار کیا جس کے بعد دونوں متاثرین سامنے آئے۔ انہوں نے اس واقعے کی تصدیق کی اور پولیس کے بعد مجسٹریٹ کے سامنے دفعہ 164 کے تحت بیانات ریکارڈ کروائے۔