امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے 13 اپریل کو ایک بیان جاری کیا جس میں اس تشویش کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں کرونا وائرس کی وبا سے متاثر ہونے والوں کو جو امدادی خوراک دی جا رہی ہے، اقلیتیں اس سے محروم ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کمیشن نے اپنے بیان میں پاکستان کے اقتصادی طور پر اہم شہر کراچی کی مثال دی جہاں مسیحیوں کو یہ کہہ کر لوٹا دیا گیا کہ یہ امداد صرف مسلمانوں کیلئے ہے۔
کمیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ کسی کو مذہب کی بنیاد پر ایسے وقت میں امداد سے محروم رکھنا جبکہ ایک وبا پھیلی ہو اور لوگ اپنے خاندانوں کو خوراک مہیا کرنے سے قاصر ہوں، بہت غلط بات ہے۔
فردوس شمیم نقوی سندھ میں پی ٹی آئی کے رکنِ صوبائی اسمبلی اور حزبِ اختلاف کے لیڈر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس طرح کی کچھ خبریں سامنے آئی تھیں مگر ایسے واقعات کے خلاف فوری ایکشن لیا گیا اور اب ایسا کہیں نہیں ہو رہا۔
ایڈووکیٹ ندیم انتھونی لاہور میں پاکستان ہیومین رائٹس کمیشن پنجاب چیپٹر کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر مسیحیوں کی بات کی جائے تو ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو گھروں میں کام کرتے ہیں یا سینیٹری ورکرز ہیں اور انتہائی پسماندہ بستیوں میں ایک چھوٹے سےکمرے کے گھر میں رہتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کی ملازمتیں چلی گئی ہیں اور ان کیلئے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی امدادی ٹیم ان تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتی تو ان کا پرسان ِحال کوئی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کی اطلاعات صوبہ سندھ میں سامنے آئی تھیں، کہ ہندواقلیتی برادری کے بعض افراد کو یہ کہہ کر واپس کر دیا گیا کہ یہ امدادی کھانا صرف مسلمانوں کیلئے ہے۔ تاہم، باقی ملک میں جو بھی امدادی کارروائیاں کی جارہی ہیں ان میں مذہب کو بنیاد نہیں بنایا گیا۔
مولانا قاری محمدحنیف جالندھری جامعہ خیر المدارس کے سربراہ اور وفاق المدارس پاکستان کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اسلامی نکتہ نظر سے دیکھیں تو صرف زکواة کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کیلئے ہے، ورنہ باقی تمام صورتوں میں مسلم اور غیر مسلم کا فرق نہیں ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاق المدارس نے پورے ملک میں ان لوگوں کی امداد کی ہے جو کرونا وائرس کی وبا میں مالی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وبا کی ابتدا ہی میں پاکستان میں تمام علمائے کرام نے امدادی کام کا آغاز کر دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ اس میں کسی فرقے یا مذہب کی بنیاد پر امتیاز نہ برتا جائے۔
سارا ہشام ساؤتھ ایشین ویمن امپاورمنٹ کے نام سے کام کرنے والی ایک فلاحی تنظیم کی سی ای او ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں اندرون سندھ میں ایسے کچھ واقعات کی خبریں آئی تھیں اور حکام کی جانب سے نوٹس لیے جانے کے بعد ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
انھوں نے کہا کہ انہیں زکواة کی رقم بھی عطیات میں ملتی ہے اور وہ بلا تفریقِ مذہب اسے لوگوں میں تقسیم کر دیتی ہیں، کیونکہ اس وقت حالات ہی ایسے ہیں اور پھر وہ امداد پیسے کی شکل میں نہیں بلکہ اشیا کی صورت میں امداد دی جاتی ہے۔
مولانا حنیف جالندھری کہتے ہیں اگر پاکستان میں کسی اقلیت سے تعلق رکھنے والوں کو امدادی اشیا حاصل کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے تو وہ اپنے منتخب نمائندوں سے ضرور رجوع کریں۔
ندیم انتھونی نے کہا کہ لاہور میں یوحنا آباد کے علاقے میں ایک مسیحی منتخب نمائندے ایک مرتبہ آئے تھے اور انہوں نے لوگوں میں امدادی اشیا تقسیم کی تھیں مگر صرف ایک سو کے قریب لوگوں کیلئے، پورے علاقے کے لیے نہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مسیحی برادری کے لئے کام کرنے والے اداروں کے اتنے وسائل نہیں کہ وہ بڑے پیمانے پر اپنی کمیونیٹی کی کوئی مدد کر سکیں۔ کچھ این جی اوز نے کراچی کے آرچ بشپ کے ساتھ مل کر کچھ انتظام کیا تھا مگر وہ امداد بھی صرف ایک ہفتے کیلئے ہی تھی، اس کے بعد کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
رکن سندھ اسمبلی فردوس نقوی کہتے ہیں کہ حکومت کا 'احساس پروگرام' انتہائی ضرورت مند خاندانوں کو جو امدادی رقم فراہم کر رہا ہے وہ ان کے لئے دو ماہ کے راشن کا انتظام کر سکتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے سندھ کی حد تک خود سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ کسی کو رات کو بھوکے پیٹ نہیں سونا پڑے گا۔