پاکستان کی وفاقی کابینہ نے قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کی تشکیل نو کی منظوری دی ہے، جو کہ ملک میں بسنے والی غیر مسلم قومیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے گا۔
غیر مسلم و مسلم نمائندوں اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں پر مشتمل یہ قومی کمیشن پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے کام کرے گا۔
قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تشکیل دیا گیا ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل 20 کی روشنی میں اقلیتوں کے جان و مال، حقوق اور مذہبی آزادیوں کے حوالے سے کام کرے گا۔
وزارت مذہبی امور کی جانب سے تجویز کردہ اس اقلیتی کمیشن میں احمدیوں کو شامل نہیں کیا گیا۔
وفاقی کابینہ نے اس سے قبل احمدیوں کو اقلیتی کمیشن کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس ضمن میں وزارت مذہبی امور کو سمری کی تیاری کی منظوری دی تھی۔
تاہم، مذہبی طبقے کے ردعمل کے بعد وزارت مذہبی امور نے احمدیوں کی شمولیت کے بغیر ہی قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کی سمری وفاقی کابینہ اجلاس میں پیش کی جسے منگل کو منظور کرلیا گیا۔
خیال رہے کہ احمدی عقیدے کے افراد کو 1973 کے آئین پاکستان میں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے جس کے تحت وہ خود کو مسلم نہیں کہلوا سکتے۔
مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ احمدیوں کو اقلیتی کمیشن کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا، چوں کہ انہوں نے آئین میں انہیں غیر مسلم قرار دینے کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے تصدیق کی کہ وفاقی کابینہ نے قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کی تشکیل کی منظوری دی ہے اور یہ کہ احمدی برادری سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد اس کا رکن نہیں ہوگا۔
وزارت مذہبی امور کی دستیاب سمری کے مطابق، قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق 17 اراکین پر مشتمل ہوگا جس میں نو ممبران اقلیتی، دو مسلمان جبکہ مذہبی امور، انسانی حقوق، داخلہ، قانون و تعلیم کی وزارتوں کے نمائندے بھی اس کمیشن کا حصہ ہوں گے۔
نو غیر مسلم اراکین میں سے تین رکن ہندو برادری، تین عیسائی، دو سکھ اور پارسی و کالاش برادری کا ایک ایک نمائندہ شامل ہوگا۔
وزارت مذہبی امور نے اپنی اس سمری میں کابینہ کو تجویز کیا تھا کہ احمدی برادری کے کسی رکن کو اقلیتی کمیشن کا رکن نامزد نہ کیا جائے اور اس کی وجہ ملک میں اس حوالے سے مذہبی اور تاریخی حساسیت کو قرار دیا گیا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ آیاز بھی کمیٹی کےممبر ہونگے، جبکہ دو مسلم مذہبی راہنما بھی اس کمیشن کا حصہ ہوں گے۔
وزارت مذہبی امور نے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے چیلا رام کیولانی کا نام کمیشن کے چییرمین کے طور پر تجویز کیا ہے۔
وزیر مذہبی امور نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد تصدیق کی کہ چیلا رام کیولانی کو اقلیتی کمیشن کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے، جن کا تعلق صوبہ سندھ کی ہندو برادری سے ہے۔
اقلیتی کمیشن کے قیام کی تاریخ و اسباب
پاکستان میں اقلیتی کمیشن کے قیام کی بنیاد 1950 کے 'لیاقت نہرو پیکٹ' میں ملتی ہے جو کہ اس وقت کے پاکستان اور بھارت کے وزیراعظم لیاقت علی خان اور جواہر لال نہرو کے درمیان طے پایا تھا۔
معاہدے کی روح سے دونوں ملکوں نے کمیشن برائے اقلیتی حقوق قائم کرکے مذہبی اقلیتوں کو بلا امتیاز مذہب، شہری حقوق میں مکمل برابری کا درجہ دینا تھا جس میں انہیں ثقافت کا تحفظ، تقریر و تحریر، کاروبار اور عبادت کی آزادی ہوگی۔
1947 میں تقسیم ہند کے بعد نئے قائم شدہ پاکستان اور بھارت میں بسنے والی مذہبی اقلیتیں تحفظات کا شکار تھیں جسے دور کرنے کے لئے دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے معاہدہ کیا تھا۔ تاہم، اس پر خاطر خواہ عمل نہ ہوسکا۔
پاکستان میں اقلیت مخالف واقعات کی روک تھام کے لئے سپریم کورٹ نے 2014 میں اقلیتوں کے حقوق و مذہبی آزادیوں کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 20 کی روشنی میں قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بنانے کے لیے وفاقی حکومت کو احکامات جاری کیے تھے۔ اس فیصلے پر عمل نہ ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے اکتوبر 2019 میں دوبارہ اس کمیشن کے قیام کے احکامات دیے۔
اقلیت مخالف واقعات کے باعث مذہبی آزادیوں کے ادارے ماضی میں تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ تاہم، 2019 اور 2020 کی امریکی وزارت خارجہ کی بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے مذہبی آزادی کو فروغ دینے اور مذہبی بنیادوں پر عدم رواداری کی روک تھام کے لیے مثبت اقدام اٹھائے ہیں۔
رپورٹ میں مذہبی اقلیتوں کیلئے پاکستان کے کئی مثبت اور کلیدی اقدامات کا اعتراف کیا گیا ہے اور کرتارپور راہداری، پہلی سکھ یونیورسٹی کے قیام اور رام مندر دوبارہ کھولنے کو قابل ستائش قرار دیا گیا۔
رپورٹ میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے پاکستانی حکومت اور سپریم کورٹ کے اقدامات کی بھی تعریف کی گئی۔