بھارت میں جانوروں پر ریسرچ کے اعلیٰ ترین ادارے "دی انڈین ویٹرنری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ" کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گائے کے پیشاب میں کئی ایسے خطرناک بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے مضر ہیں۔
اس تحقیق کے دوران گائے، بھینس اور انسان کے پیشاب کے 73 نمونے حاصل کیےگئے۔ ان نمونوں میں پائے جانے والے بیکٹیریا پر تحقیق کی گئی جن میں سے 14 ایسی اقسام پائی گئیں جو انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ہیں۔
مائکروبائیولوجسٹ بوجھ راج سنگھ اور تین پی ایچ ڈی طلبہ کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق ان پیشاب کے نمونوں میں کسی قسم کی اینٹی بیکٹیریل خصوصیات پائی نہیں جاتی ہیں۔ اور گائے کا تازہ پیشاب کسی بھی صورت میں انسان کے استعمال کے لیے موزوں نہیں ہے۔
واضح رہے کہ بھارت میں گائے کو مذہبی طور پر مقدس مانا جاتا ہے۔
SEE ALSO: بھارت: کرناٹک میں گاؤ رکشکوں کے مبینہ تشدد سے جانور لے جانے والا مسلمان تاجر ہلاکبھارتی اخبار 'انڈیا ہیرالڈ' کے مطابق ماضی میں ادارے کے سابق ڈائریکٹر آر ایس چوہان نے دعویٰ کیا تھا کہ کشید کیے جانے کے بعد گائے کا پیشاب انسانوں میں قوتِ مدافعت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ کینسر جیسے موذی مرض اور کرونا وائرس کے خلاف بھی مددگار ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں برس جنوری میں بھارتی ریاست گجرات کے ضلع ٹپی کے ایک سیشن جج نے کہا تھا کہ گائے کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس کا پیشاب بہت سے لاعلاج امراض کا علاج کرسکتا ہے اور گائے کا گوبر تابکاری کو روکتا ہے۔
ٹوئٹر پر امراضِ جگر کے ڈاکٹر اور سائنس دان ایبی فلپس نے، جو سوشل میڈیا ویب سائٹ پر دی لیور ڈاکٹر کے نام سے لکھتے ہیں، ایک ٹوئٹ میں کہا کہ جہاں ڈاکٹروں کی قلیل تنخواہ اور موذی بیماریوں جیسے مسائل درپیش ہیں وہیں بھارتی ادارہ ایسے موضوع پر عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ کر رہاہے۔
انہوں نے تنقید کی کہ اب بھی ایسا لگتا ہے کہ تحقیق کے مصنفین ان نتائج سے خوش نہیں ہیں اور وہ کشید کیےہوئے گائے کے پیشاب پر مزید تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔