امریکہ میں گلہ بانی کی باضابطہ صنعت کا آغاز 1870ء کی دہائی میں ہوا۔اِس کے ساتھ ہی ایک نئے ورکر کا تصور بھی اُبھرا جو مویشیوں کی دیکھ بھال پر مامور تھا۔ اِسے کاؤبوائے کا نام دیا گیا۔
کاؤ بوائز جو مویشیوں کی نگرانی کرتے کرتے جنگل پار کر جاتے تھے اکثر نوجوان ہوا کرتے تھے۔ اِس لیے، اُنھیں کاؤ بوائز کہا جانے لگا۔آج ہم امریکہ کی تاریخ میں کاؤبوائز کی زندگی پر روشنی ڈالیں گے۔
اب تک کاؤبوائز سے متعلق تقریباً ہر قسم کی فلم بنائی جا چکی ہے اور اکثر ٹیلی ویژن پر بھی کاؤ بوائز کی کہانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مگر کاؤبوائز کی اصل زندگی کو بہت کم ہی پیش کیا گیا ہے۔
کاؤ بوائز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُن کی زندگی بہت دشواریوں، تنہائی اور خطرات سے بھری ہوتی ہے۔ کاؤ بوائز نے اپنی کہانی گیتوں اور نظموٕ ں کی صورت میں بھی بیان کی ہے۔ اُن میں سینکڑوں افراد ایسے ہیں جِن کے نام کسی کو بھی معلوم نہیں۔
اُنھوں نے یہ گیت تب گنگنائے جب وہ اپنے مویشیوں کو چرانے کے لیے دوردراز جنگلوں میں لے جاتے تھے یا جب وہ رات کے وقت اپنی کوٹھری میں اکیلے ہوا کرتے تھے۔
وہ عموماً ایسی چیزوں کے متعلق گیت گاتے تھے جِن کے وہ قریب ہوا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر گھوڑے، گائے اور پھر خطرات کے درمیان میں اکثر اُنھیں اپنی موت کا خدشہ بھی ہوا کرتا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ مویشی منڈی جہاں مویشی بیچے اور خریدے جاتے تھے وہاں کے لمبے راستے کو طے کرتے وقت وہ یہ گیت گایا کرتے۔
اِس گیت میں بتایا گیا ہے کہ کاؤبوائے اُس بچھڑے کو لے جاتے وقت افسوس کا اظہار کر رہا ہے جو اپنے ریوڑ سے الگ ہو رہا ہے کیونکہ اُسے جلد ہی ذبح کر دیا جائے گا۔کاؤ بوائے اُن مویشیوں کو دھکیلتے ہوئے یہ گیت گا رہا ہے۔
ایک گھوڑا دِن رات کاؤ بوائے کے ساتھ رہتا ہے۔کاؤ بوائے کو اپنے گھوڑے پر فخر ہے ،اور، اِنہی جذبات کا اظہار اِس گیت میں کیا گیا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: